ایکٹریس کی آنکھ

ایکٹریس کی آنکھ (1941)
by سعادت حسن منٹو
319968ایکٹریس کی آنکھ1941سعادت حسن منٹو

’’پاپوں کی گٹھری‘‘ کی شوٹنگ تمام شب ہوتی رہی تھی،رات کے تھکے ماندے ایکٹر، لکڑی کے کمرے میں جو کمپنی کے ولن نے اپنے میک اپ کے لیے خاص طور پرتیار کرایا تھا اور جس میں فرصت کے وقت سب ایکٹر اور ایکٹرسیں سیٹھ کی مالی حالت پر تبصرہ کیا کرتے تھے، صوفوں اور کرسیوں پر اونگھ رہے تھے۔ اس چوبی کمرے کے ایک کونے میں میلی سی تپائی کے اوپر دس پندرہ چائے کی خالی پیالیاں اوندھی سیدھی پڑی تھیں جو شاید رات کو نیند کا غلبہ دور کرنے کے لیے ان ایکٹروں نے پی تھیں۔ان پیالوں پر سیکڑوں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کمرے کے باہر ان کی بھنبھناہٹ سن کر کسی نووارد کو یہی معلوم ہوتا کہ اندر بجلی کا پنکھا چل رہا ہے۔

دراز قد ولن جو شکل و صورت سے لاہور کا کوچوان معلوم ہوتا تھا، ریشمی سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز تھا۔ آنکھیں کھلی تھیں اور منہ بھی نیم وا تھا مگر وہ سو رہا تھا۔ اسی طرح اس کے پاس ہی آرام کرسی پر ایک مونچھوں والا ادھیڑ عمر کا ایکٹر اونگھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس ڈنڈے سے ٹیک لگائے ایک اور ایکٹر سونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کمپنی کے مکالمہ نویس یعنی منشی صاحب ہونٹوں میں بیڑی دبائے اور ٹانگیں میک اپ ٹیبل پر رکھے، شاید وہ گیت بنانے میں مصروف تھے جو انھیں چار بجے سیٹھ صاحب کو دکھانا تھا۔

’’اوئی، اوئی، اوئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔‘‘

دفعتاً یہ آواز باہر سے اس چوبی کمرے میں کھڑکیوں کے راستے اندر داخل ہوئی۔ ولن صاحب جھٹ سے اٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ مونچھوں والے ایکٹر کے لمبے لمبے کان ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لیے تیار ہوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے اپنی ٹانگیں اُٹھالیں اور ولن صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیا۔

’’اُوئی، اُوئی، اُوئی۔۔۔ ہائے۔۔۔ ہائے۔‘‘

اس پر، ولن، منشی اور دوسرے ایکٹر جو نیم غنودگی کی حالت میں تھے چونک پڑے، سب نے کاٹھ کے اس بکس نما کمرے سے اپنی گردنیں باہر نکالیں۔

’’ارے، کیا ہے بھئی۔‘‘

’’خیر تو ہے!‘‘

’’کیا ہوا؟‘‘

’’اماں، یہ تو۔۔۔ دیوی ہیں!‘‘

’’کیا بات ہے! دیوی؟‘‘

جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔ کھڑکی میں سے نکلی ہوئی ہر گردن بڑے اضطراب کے ساتھ متحرک ہوئی اور ہر ایک کے منہ سے گھبراہٹ میں ہمدردی اور استفسار کے ملے جلے جذبات کا اظہار ہوا۔

’’ہائے، ہائے، ہائے ۔۔۔ اُوئی ۔۔۔ اُوئی!‘‘

دیوی، کمپنی کی ہر دلعزیز ہیروئن کے چھوٹے سے منہ سے چیخیں نکلیں اور بانہوں کو انتہائی کرب و اضطراب کے تحت ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے چپل پہنے پاؤں کو زور زور سے اسٹوڈیوکی پتھریلی زمین پر مارتے ہوئے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ٹھمکا ٹھمکا بوٹا سا قد، گول گول گدرایا ہوا ڈیل، کھلتی ہوئی گندمی رنگت، خوب خوب کالی کالی تیکھی بھنویں،کھلی پیشانی پر گہرا کسوم کا ٹیکا۔۔۔ بال کالے بھونراسے جو سیدھی مانگ نکال کر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کرکنگھی کیے ہوئے تھے، ایسے معلوم ہوتے تھے، جیسے شہد کی بہت سی مکھیاں چھتے پربیٹھی ہوئی ہیں۔

کنارے دار سفید سوتی ساڑھی میں لپٹی ہوئی، چولی گجراتی تراش کی تھی، بغیر آستینوں کے، جن میں سے جوبن پھٹا پڑتا تھا، ساڑھی بمبئی کے طرز سے بندھی تھی۔ چاروں طرف میٹھا میٹھا جھول دیا ہوا تھا۔۔۔ گول گول کلائیاں جن میں کُھلی کُھلی جاپانی ریشمیں چوڑیاں کھنکنا رہی تھیں۔ ان ریشمیں چوڑیوں میں ملی ہوئی ادھر ادھر ولایتی سونے کی پتلی پتلی کنگنیاں جھم جھم کررہی تھیں، کان موزوں اور لویں بڑی خوبصورتی کے ساتھ نیچے جھکی ہوئیں، جن میں ہیرے کے آویزے، شبنم کی دو تھراتی ہوئی بوندیں معلوم ہورہی تھیں۔چیختی چلاتی، اور زمین کو چپل پہنے پیروں سے کوٹتی، دیوی نے داہنی آنکھ کو ننھے سے سفید رومال کے ساتھ ملنا شروع کردیا۔

’’ہائے میری آنکھ۔۔۔ ہائے میری آنکھ۔۔۔ ہائے!‘‘

کاٹھ کے بکس سے باہر نکلی ہوئی کچھ گردنیں اندر کو ہوگئیں اور جو باہر تھیں، پھر سے ہلنے لگیں۔

’’آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے؟‘‘

’’یہاں کنکر بھی تو بے شمار ہیں۔۔۔ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔‘‘

’’یہاں جھاڑو بھی تو چھ مہینے کے بعد دی جاتی ہے۔‘‘

’’اندر آجاؤ دیوی!‘‘

’’ہاں، ہاں، آؤ۔۔۔ آنکھ کو اس طرح نہ ملو۔‘‘

’’ارے بابا۔۔۔ بولا نا! تکلیف ہو جائےگی۔۔۔ تم اندر تو آؤ۔‘‘

آنکھ ملتی ملتی، دیوی کمرے کے دروازے کی جانب بڑھی۔

ولن نے لپک کر تپائی پر سے بڑی صفائی کے ساتھ ایک رومال میں چائے کی پیالیاں سمیٹ کر میک اپ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے چھپا دیں اور اپنی پرانی پتلون سے ٹیبل کو جھاڑپونچھ کر صاف کردیا۔ باقی ایکٹروں نے کرسیاں اپنی اپنی جگہ پر جما دیں اور بڑے سلیقے سے بیٹھ گئے۔ منشی صاحب نے پرانی ادھ جلی بیڑی پھینک کر جیب سے ایک سگرٹ نکال کر سلگانا شروع کردیا۔

دیوی اندر آئی۔ صوفے پرسے منشی صاحب اور ولن اٹھ کھڑے ہوئے۔ منشی صاحب نے بڑھ کر کہا،’’آؤ، دیوی یہاں بیٹھو۔‘‘ دروازے کے پاس بڑی بڑی سیاہ و سفید مونچھوں والے بزرگ بیٹھے تھے، ان کی مونچھوں کے لٹکے اور بڑھے ہوئے بال تھرتھرائے اور انھوں نے اپنی نشست پیش کرتے ہوئے گجراتی لہجہ میں کہا، ’’ادھر بیسو۔‘‘

دیوی ان کی تھرتھراتی ہوئی مونچھوں کی طرف دھیان دیے بغیر آنکھ ملتی اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھ گئی۔ ایک نوجوان نے جو ہیرو سے معلوم ہورہے تھے اور پھنسی پھنسی قمیص پہنے ہوئے تھے، جھٹ سے ایک چوکی نما کرسی سرکا کر آگے بڑھا دی اور دیوی نے اس پر بیٹھ کر اپنی ناک کے بانسے کو رومال سے رگڑنا شروع کردیا۔سب کے چہرے پر دیوی کی تکلیف کے احساس نے ایک عجیب و غریب رنگ پیدا کردیا تھا۔ منشی صاحب کی قوتِ احساس چونکہ دوسرے مردوں سے زیادہ تھی، اس لیے چشمہ ہٹا کر انھوں نے اپنی آنکھ ملنا شروع کردی تھی۔جس نوجوان نے کرسی پیش کی تھی، اس نے جھک کر دیوی کی آنکھ کا ملاحظہ کیا اور بڑے مفکرانہ انداز میں کہا،’’آنکھ کی سرخی بتا رہی ہے کہ تکلیف ضرور ہے۔‘‘ ان کا لہجہ پھٹا ہوا تھا۔ آواز اتنی بلند تھی کہ کمرہ گونج اٹھا۔

یہ کہنا تھا کہ دیوی نے اور زور زور سے چلانا شرع کردیا اور سفید ساڑھی میں اس کی ٹانگیں اضطراب کا بے پناہ مظاہرہ کرنے لگیں۔ولن صاحب آگے بڑھے اور بڑی ہمدردی کے ساتھ اپنی سخت کمر جھکا کر دیوی سے پوچھا،’’جلن محسوس ہوتی ہے یا چُبھن!‘‘ ایک اور صاحب جو اپنے سولا ہیٹ سمیت کمرے میں ابھی ابھی تشریف لائے تھے، آگے بڑھ کے پوچھنے لگے،’’پپوٹوں کے نیچے رگڑ سی محسوس تو نہیں ہوتی۔‘‘ دیوی کی آنکھ سرخ ہورہی تھی۔ پپوٹے ملنے اور آنسوؤں کی نمی کے باعث میلے میلے نظر آرہے تھے۔ چتونوں میں سے لال لال ڈوروں کی جھلک، چک میں سے غروبِ آفتاب کا سرخ سرخ منظر پیش کررہی تھی۔ داہنی آنکھ کی پلکیں نمی کے باعث بھاری اور گھنی ہوگئی تھیں، جس سے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔ باہیں ڈھیلی کرکے دیوی نے دکھتی آنکھ کی پتلی نچاتے ہوئے کہا۔

’’آں۔۔۔ بڑا تکلیپھ ہوتا ہے۔۔۔ ہائے۔۔۔ اُوئی!‘‘اور پھر سے آنکھ کوگیلے رومال سے ملنا شروع کردیا۔

سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے جو کونے میں بیٹھے تھے، بلند آواز میں کہا،’’اس طرح آنکھ نہ رگڑو، خالی پیلی کوئی اور تکلیپھ ہو جائے گا۔‘‘

’’ہاں، ہاں۔۔۔ ارے، تم پھر وہی کررہی ہو۔‘‘ پھٹی آواز والے نوجوان نے کہا۔

ولن جو فوراً ہی دیوی کی آنکھ کو ٹھیک حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، بگڑ کر بولے،’’ تم سب بیکار باتیں بنا رہے ہو۔۔۔ کسی سے ابھی تک یہ بھی نہیں ہوا کہ دوڑ کر ڈاکٹر کو بلا لائے۔۔۔ اپنی آنکھ میں یہ تکلیف ہو توپتہ چلے۔‘‘یہ کہہ کر انھوں نے مڑ کر کھڑکی میں سے باہر گردن نکالی اور زور زور سے پکارنا شروع کیا،’’ارے، کوئی ہے۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔؟ گلاب۔۔۔؟ گلاب!‘‘

جب ان کی آواز صدابصحرا ثابت ہوئی تو انھوں نے گردن اندر کو کرلی اور بڑبڑانا شروع کردیا، ’’خدا جانے ہوٹل والے کا یہ چھوکرا کہاں غائب ہو جاتا ہے۔۔۔ پڑا اونگھ رہا ہوگا اسٹوڈیو میں کسی تختے پر۔۔۔ مردود نابکار۔‘‘ پھر فوراً ہی دور اسٹوڈیو کے اس طرف گلاب کو دیکھ کر چلائے، جو انگلیوں میں چائے کی پیالیاں لٹکائے چلا آرہا تھا،’’ارے گلاب۔۔۔گلاب!‘‘

گلاب بھاگتا ہوا آیا اور کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ٹھہر گیا۔ ولن صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس سے کہا،’’دیکھو! ایک گلاس میں پانی لاؤ۔ جلدی سے۔۔۔ بھاگو!‘‘ گلاب نے کھڑے کھڑے اندر جھانکا، دیکھنے کے لیے کہ یہاں گڑ بڑ کیا ہے۔۔۔ اس پر ہیرو صاحب للکارے،’’ارے دیکھتا کیا ہے۔۔۔ لا، نا گلاس میں تھوڑا سا پانی۔۔۔ بھاگ کے جا، بھاگ کے!‘‘

گلاب، سامنے ٹین کی چھت والے ہوٹل کی طرف روانہ ہوگیا۔ دیوی کی آنکھ میں چبھن اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور اس کی بنارسی لنگڑے کی کیری ایسی ننھی منی ٹھوڑی روتے بچے کی طرح کانپنے لگی اور وہ اٹھ کر درد کی شدت سے کراہتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی۔ دستی بٹوے سے ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک آئینہ نکال کر اس نے اپنی دکھتی آنکھ کو دیکھنا شروع کردیا۔ اتنے میں منشی صاحب بولے،’’ گلاب سے کہہ دیا ہوتا۔۔۔ پانی میں تھوڑی سی برف بھی ڈالتا لائے!‘‘

’’ہاں، ہاں، سرد پانی اچھا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ولن صاحب کھڑکی میں سے گردن باہر نکال کرچلائے،’’گلاب۔۔۔ ارے گلاب۔۔۔ پانی میں تھوڑی سی برف چھوڑ کے لانا۔‘‘

اس دوران میں ہیرو صاحب جو کچھ سوچ رہے تھے، کہنے لگے،’’میں بولتا ہوں کہ رومال کو سانس کی بھانپ سے گرم کرو اور اس سے آنکھ کو سینک دو۔۔۔ کیوں دادا؟‘‘

’’ایک دم ٹھیک رہے گا!‘‘ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے سر کو اثبات میں بڑے زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔

ہیرو صاحب کھونٹیوں کی طرف بڑھے۔ اپنے کوٹ میں سے ایک سفید رومال نکال کر دیوی کو سانس کے ذریعے سے اس کو گرم کرنے کی ترکیب بتائی اور الگ ہو کرکھڑے ہوگئے۔ دیوی نے رومال لے لیا اور اسے منہ کے پاس لے جا کر گال پھلا پھلا کر سانس کی گرمی پہنچائی، آنکھ کو ٹکور دی مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔

’’کچھ آرام آیا؟‘‘ سولاہیٹ والے صاحب نے دریافت کیا۔ دیوی نے رونی آواز میں جواب دیا،’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ ابھی نہیں نکلا۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔!‘‘اتنے میں گلاب پانی کا گلاس لے کر آگیا۔ ہیرو اور ولن دوڑ کربڑھے اور دونوں نے مل کر دیوی کی آنکھ میں پانی چوایا۔ جب گلاس کا پانی آنکھ کو غسل دینے میں ختم ہوگیا، تو دیوی پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئی اور آنکھ جھپکانے لگی۔

’’کچھ افاقہ ہوا؟‘‘

’’اب تکلیف تو نہیں ہے؟‘‘

’’کنکری نکل گئی ہوگی۔‘‘

’’بس تھوڑی دیر کے بعد آرام آجائے گا!‘‘

آنکھ دھل جانے پر پانی کی ٹھنڈک نے تھوڑی دیر کے لیے دیوی کی آنکھ میں چبھن رفع کردی، مگر فوراً ہی پھر سے اس نے درد کے مارے چلانا شروع کردیا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘یہ کہتے ہوئے ایک صاحب باہر سے اندر آئے اور دروازے کے قریب کھڑے ہوکر معاملے کی اہمیت کو سمجھنا شروع کردیا۔

نووارد کہنہ سال ہونے کے باوجود چست و چالاک معلوم ہوتے تھے۔ مونچھیں سفید تھیں، جو بیڑی کے دھوئیں کے باعث سیاہی مائل زرد رنگت اختیار کر چکی تھیں، ان کے کھڑے ہونے کا انداز بتا رہا تھا کہ فوج میں رہ چکے ہیں۔سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر ذرا اس طرف ترچھی پہنے ہوئے تھے۔ پتلون اور کوٹ کا کپڑا معمولی اور خاکستری رنگ کا تھا۔ کولھوں اور رانوں کے اوپر پتلون میں پڑے ہوئے جھول اس بات پر چغلیاں کھا رہے تھے کہ ان کی ٹانگوں پر گوشت بہت کم ہے۔ کالر میں بندھی ہوئی میلی نکٹائی کچھ اس طرح نیچے لٹک رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا وہ ان سے روٹھی ہوئی ہے، پتلون کا کپڑا گھٹنوں پر کھنچ کر آگے بڑھا ہوا تھا، جو یہ بتا رہا تھا کہ وہ اس بے جان چیز سے بہت کڑا کام لیتے رہے ہیں، گال بڑھاپے کے باعث بہ پچکے ہوئے، آنکھیں ذرا اندر کو دھنسی ہوئیں، جو بار بار شانوں کی عجیب جنبش کے ساتھ سکیڑ لی جاتی تھیں۔

آپ نے کاندھوں کو جنبش دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا،’’کنکر پڑ گیا ہے کیا؟‘‘ اور اثبات میں جواب پا کر دیوی کی طرف بڑھے۔ ہیرو اور ولن کو ایک طرف ہٹنے کا اشارہ کرکے آپ نے کہا،’’پانی سے آرام نہیں آیا۔۔۔ خیر۔۔۔ رومال ہے کسی کے پاس؟‘‘

نصف درجن رومال ان کے ہاتھ میں دے دیئے گئے۔ بڑے ڈرامائی انداز میں آپ نے ان پیش کردہ رومالوں میں سے ایک منتخب کیا، اور اس کا ایک کنارہ پکڑ کر دیوی کو آنکھ پر سے ہاتھ ہٹالینے کا حکم دیا۔جب دیوی نے ان کے حکم کی تعمیل کی، تو انھوں نے جیب میں سے مداری کے سے انداز میں ایک چرمی بٹوا نکالا اور اس میں سے اپنا چشمہ نکال کر کمال احتیاط سے ناک پر چڑھالیا۔ پھر چشمے کے شیشوں میں سے دیوی کی آنکھ کا دور ہی سے اکڑ کر معائنہ کیا۔ پھر دفعتاً فوٹو گرافر کی سی پھرتی دکھاتے ہوئے آپ نے اپنی ٹانگیں چوڑی کیں اور جب انھوں نے اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے دیوی کے پپوٹوں کو وا کرنا چاہا تو ایسا معلوم ہوا کہ وہ فوٹو لیتے وقت کیمرے کا لینس بند کررہے ہیں۔

دو تین مرتبہ ڈرامائی انداز سے اپنے کھڑے ہونے کا رخ بدل کر انھوں نے دیوی کی آنکھوں کا معائنہ کیااور پھر پپوٹے کھول کر بڑی آہستگی سے رومال کا کنارہ ان کے اندر داخل کر دیا۔۔۔ حاضرین خاموشی سے اس عمل کو دیکھتے رہے۔ پانچ منٹ تک کمرے میں قبر کی سی خاموشی طاری رہی۔آنکھ صاف کرنے کے بعد اسی ڈرامائی انداز میں فوٹو گرافر صاحب نے۔۔۔ چونکہ وہ بزرگ فوٹو گرافر ہی تھے۔۔۔چشمہ اتار کر چرمی بٹوے میں رکھ کر دیوی سے کہا، ’’اب کنکر نکل گیا ہے۔۔۔تھوڑی دیر میں آرام آ جائے گا!‘‘دیوی نے انگلیوں سے آنکھ کے پپوٹوں کو چھوااور ننھا سا آئینہ نکال کر اپنا اطمینان کرنے لگی۔

’’کنکری نکل گئی نا؟‘‘

’’اب درد محسوس تو نہیں ہوتا!‘‘

’’سالا، اب نکل گیا ہوگا، بہت دکھ دیا ہے اس نے۔‘‘

’’دیوی۔۔۔ اب طبیعت کیسی ہے؟‘‘

یہ شور سن کر فوٹو گرافر صاحب نے کاندھوں کو زور سے جنبش دی اور کہا،’’تم سارا دن کوشش کرتے رہتے مگر کچھ نہ ہوتا۔۔۔ہم فوج میں پچیس برس بھاڑ نہیں جھونکتا رہا۔۔۔یہ سب کام جانتا ہے۔۔۔ کنکر نکل گیا ہے، اب صرف جلن باقی ہے،وہ بھی دور ہو جائے گی۔‘‘ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دیوی جو آئینے میں رونی صورت بنائے اپنا اطمینان کر رہی تھی، ایکا ایکی مسکرائی اور کھل کھلا کر ہنس دی۔۔۔چوبی کمرے میں مترنم تارے بکھر گئے۔

’’اب آرام ہے۔۔۔ اب آرام ہے!‘‘ یہ کہہ کر دیوی سیٹھ کی جانب روانہ ہو گئی جو ہوٹل کے پاس اکیلا کھڑا تھا، اور سب لوگ دیکھتے رہ گئے۔ہیرو جب صوفے پر بیٹھنے لگا تو تو منشی صاحب کی ران نیچے دب گئی۔آپ بھنا گئے،’’اب کیا پھر سونے کا ارادہ ہے۔۔۔ چلو بیٹھو،مجھے کل والے سین کے ڈائلاگ سناؤ۔‘‘

ہیرو کے دماغ میں اس وقت کوئی اور ہی سین تھا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.