ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
by مرزا غالب
300514ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حسابمرزا غالب

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا

اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا

موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا

کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا

دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا

صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.