ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
by مرزا غالب

ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
خون جگر ودیعت مژگان یار تھا

اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سر رہ گزار تھا

موج سراب دشت وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثل جوہر تیغ آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پر اب
دیکھا تو کم ہوے پہ غم روزگار تھا

کس کا جنون دید تمنا شکار تھا
آئینہ خانہ وادی جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئنۂ انتظار تھا
ہر برگ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

جوں غنچہ و گل آفت فال نظر نہ پوچھ
پیکاں سے تیرے جلوۂ زخم آشکار تھا

دیکھی وفاۓ فرصت رنج و نشاط دہر
خمیازہ یک درازی عمر خمار تھا

صبح قیامت ایک دم گرگ تھی اسدؔ
جس دشت میں وہ شوخ دو عالم شکار تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse