ایک تھی عورت

ایک تھی عورت
by میراجی
304653ایک تھی عورتمیراجی

یہ جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں
یوں ہی چیخو چلاؤ ہنس دو یوں ہی ہاتھ اٹھاؤ ہوا میں ہلاؤ ہلا کر گرا دو
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو
کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے
کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کرو ایسی باتیں
ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے
جو گنجان پیڑوں کی شاخوں سے ٹکرائے دل کو انوکھی پہیلی بجھائے مگر وہ پہیلی سمجھ میں نہ آئے

کوئی سرد چشمہ ابلتا ہوا اور مچلتا ہوا یاد آئے
جو ہو دیکھنے میں ٹپکتی ہوئی چند بوندیں
مگر اپنی حد سے بڑھے تو بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر
یہ جی چاہتا ہے کہ ہم ایسے ساگر کی لہروں پہ ایسی ہوا سے بہائیں وہ کشتی جو بہتی نہیں ہے
مسافر کو لیکن بہاتی چلی جاتی ہے اور پلٹ کر نہیں آتی ہے ایک گہرے سکوں سے ملاتی چلی جاتی ہے
یہ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی یوں ہی چیخیں چلائیں ہنس دیں یوں ہی ہاتھ اٹھائیں
ہوا میں ہلائیں ہلا کر گرا دیں
کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگے ہیں
مگر تم ہمیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لو
مچلنے لگیں تو سنبھالو
کبھی مسکراتے ہوئے شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کریں ایسی باتیں
تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے
وہی سرسراتی ہوا جس کے میٹھے فسوں سے دوپٹہ پھسل جاتا ہے
وہی سرسراتی ہوا جو ہر انجان عورت کے بکھرے ہوئے گیسوؤں کو
کسی سوئے جنگل پہ گنگھور کالی گھٹا کا نیا بھیس دے کر
جگا دیتی ہے

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے
ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے
یہ جی چاہتا ہے
مگر اپنی حد سے بڑھے تو ہر اک شے بنے ایک ندی بنے ایک دریا بنے ایک ساگر
وہ ساگر جو بہتے مسافر کو آگے بہاتا نہیں ہے جھکولے دئیے جاتا ہے بس
جھکولے دئیے جاتا ہے
اور پھر جی ہی جی میں مسافر یہ کہتا ہے اپنی کہانی نئی تو نہیں ہے
پرانی کہانی میں کیا لطف آئے
ہمیں آج کس نے کہا تھا پرانی کہانی سناؤ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.