ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
ایک جاگہ پہ نہیں ہے مجھے آرام کہیں
ہے عجب حال مرا صبح کہیں شام کہیں
چشم نے جو یمنی لخت جگر کے کھو دے
ان نگیں کا تو نہیں سنتے ہم اب نام کہیں
اپنی قسمت میں مئے صاف تو ساقی معلوم
کاش پھینکے تو ادھر درد تہ جام کہیں
اے فلک طرح سے مکڑی کی تو جالوں کو نہ پور
وہ جو شہباز ہیں آتے ہیں تہہ دام کہیں
اس کمر سے نگہ شوق لپٹتی تو ہے لیک
جی یہ دھڑکے ہے کہ آ جائے نہ الزام کہیں
تم نے کی دل کی طلب ہم بھی کہاویں گے ولیک
یوں یہ فرمائشیں ہوتی ہیں سرانجام کہیں
پائے دیوار سے پھر میری طرح وہ نہ اٹھا
جن نے دیکھا تجھے یکبار سر بام کہیں
عذر تقصیر بھی چاہوں گا میں اس سے اے دل
ٹک تو خاموش ہو دینے سے وہ دشنام کہیں
عزم کعبہ کا تو قائمؔ تو کیا ہے لیکن
رہن مے کیجو نہ واں جامۂ احرام کہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |