ایک دن مدتوں میں آئے ہو

ایک دن مدتوں میں آئے ہو
by میر محمدی بیدار

ایک دن مدتوں میں آئے ہو
آہ تس پر بھی منہ چھپائے ہو

آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو

کیا کہوں تم کو اے دل و دیدہ
جو جو کچھ سر پہ میرے لائے ہو

دید بس کر لیا اس عالم کا
پھر چلو واں جہاں سے آئے ہو

کیونکہ تشبیہ اس سے دے بیدارؔ
مہ سے تم حسن میں سوائے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse