ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو

ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
by میر محمدی بیدار

ایک دن وصل سے اپنے مجھے تم شاد کرو
پھر مری جان جو کچھ چاہو سو بیداد کرو

گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے
وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو

اب تو ویراں کئے جاتے ہو طرب خانۂ دل
آہ کیا جانے کب آ پھر اسے آباد کرو

یاد میں اس قد و رخسار کے اے غم زدگاں
جا کے ٹک باغ میں سیر گل و شمشاد کرو

لے کے دل چاہو کہ پھر دیوے وہ دلبر معلوم
کیسے ہی نالہ کرو کیسی ہی فریاد کرو

سرمۂ دیدۂ عشاق ہے یہ اے خوباں
اپنے کوچہ سے مری خاک نہ برباد کرو

دیکھ کر طائر دل آپ کو بھولا پرواز
خواہ پابند کرو خواہ اسے آزاد کرو

آپ کی چاہ سے چاہیں ہیں مجھے سب ورنہ
کون پھر یاد کرے تم نہ اگر یاد کرو

شمع افروختہ جب بزم میں دیکھو یارو
حال بیدارؔ جگر سوختہ واں یاد کرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse