ایک طوفاں ہے غم عشق میں رونا کیا ہے
ایک طوفاں ہے غم عشق میں رونا کیا ہے
نہیں معلوم کہ انجام کو ہونا کیا ہے
دیکھ کر سانولی صورت تری یوسف بھی کہے
چٹپٹا حسن نمک دار سلونا کیا ہے
چار باتیں بھی کبھی آپ نے گھل مل کے نہ کیں
انہیں باتوں کا ہے رونا مجھے رونا کیا ہے
کاش مل جائے ترا سایۂ دیوار ہمیں
اوڑھنا کیا ہے فقیروں کا بچھونا کیا ہے
اس کی ٹھوکر سے بھی کم بخت نہ جاگا افسوس
موت ہے داغؔ سیہ مست کا سونا کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |