ایک علامت

ایک علامت
by مصطفٰی زیدی
319131ایک علامتمصطفٰی زیدی

گھاس سے بچ کے چلو ریت کو گلزار کہو
نرم کلیوں پہ چڑھا دو غم دوراں کے غلاف
خود کو دل تھام کے مرغان گرفتار کہو
رات کو اس کے تبسم سے لپٹ کر سو جاؤ
صبح اٹھو تو اسے شاہد بازار کہو
ذہن کیا چیز ہے جذبے کی حقیقت کیا ہے
فرش پر بیٹھ کے تبلیغ کے اشعار کہو

اسی رفتار سے چلتا ہے جہان گزراں
انہی قدموں پہ زمانے کے قدم اٹھتے ہیں
کوئی عینک سے دکھاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کوئی کاندھوں پہ اٹھاتا ہے تو ہم اٹھتے ہیں
ایک رقاصۂ طناز کی محفل ہے جہاں
کبھی آتے ہیں بھتیجے کبھی عم اٹھتے ہیں
کبھی اک گوشۂ تاریک کے ویرانے میں
کسی جگنو کے چمکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی اس مرحمت خاص کا اندازہ نہیں
کبھی دو بوند چھلکنے پہ فغاں ہوتی ہے
کبھی منزل کے تصور سے جگر جلتے ہیں
کبھی صحرا میں بھٹکنے پہ فغاں ہوتی ہے

ہم نے اس چور کو سینوں میں دبا رکھا ہے
ہم اسی چور کے خطرے سے پریشان بھی ہیں
کون سمجھے گا کہ اس سطح خوش آواز کے بعد
اسی ٹھہرے ہوئے تالاب میں طوفان بھی ہیں
بھائی کی آنکھ کے کانٹے پہ نظر ہے سب کی
دیوتا بھی ہیں اسی بزم میں انسان بھی ہیں
خط سرطان سے آتی ہے ملر کی آواز
اور امریکہ کے بازار میں کھو جاتی ہے
جائس کی فکر نے تعمیر کیا ہے جس کو
وہ زمیں حسرت معمار میں کھو جاتی ہے
کبھی منٹو کا قلم بن کے دہکتی ہے حیات
کبھی سرمائے کی تلوار میں کھو جاتی ہے

ہر پیمبر پہ ہنسا ہے یہ زمانہ لیکن
ہر پیمبر نے جھکائی ہے زمانے کی جبیں
اپنے ہم عصر سے خائف نہ ہو اے وقت کی آنچ
اس کی مٹی میں ستاروں کا دھواں ہے کہ نہیں
اسی مٹی سے دمکتی ہے یہ دھرتی ورنہ
درد یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں

جسم کے داغ چھپانا تو کوئی بات نہیں
روح کے زخم سلگتے ہیں پس پردۂ دل
سر چھپا لیتے ہو تم ریت میں جس کے آگے
اسی طوفان میں گھر جاتے ہیں لاکھوں ساحل
ایک راہی جسے احساس نہ حسرت نہ طلب
اک سفر جس میں نہ منزل نہ سراغ منزل

اپنی حساس سبک ناک سے رومال ہٹاؤ
کھاد میں محض تعفن ہی نہیں خیز بھی ہے
ذوق درکار ہے قطرے کو گہر کرنے میں
یہ مئے ناب پر اسرار بھی ہے تیز بھی ہے
کچھ تو ہے وجۂ دل آزاری و آہنگ و ستیز
ورنہ یہ طبع خوش اخلاق و کم آمیز بھی ہے

شہر کی تیرہ و تاریک گزر گاہوں میں
داستاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
زیست قانون و فرامین قفس کے آگے
بے زباں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا
اس شفا خانۂ اخلاق میں نشتر کے قریب
رگ جاں ہوگی تو منٹو کا قلم لکھے گا

گوپی ناتھ اور ظفر شاہ کے جیسے کردار
کتنی گمنامی میں جی لیتے ہیں مر جاتے ہیں
کس نے ان آنکھوں میں وہ خواب لہکتے دیکھے
جو اس انسانوں کے جنگل میں بکھر جاتے ہیں
کس کا آئینہ ہے موذیل کی اس روح کا عکس
جس میں مریم کے حسیں نقش نکھر جاتے ہیں

اے نئے عصر کی رگ رگ کو سمجھنے والے
فہم و ادراک بدی ہیں تو بدی تیری ہے
چند لمحوں کی خدائی ہے روایات کے ساتھ
فن کے آدرش کی روح ابدی تیری ہے
موت یہ صرف سعادت کی ہے منٹو کی نہیں
یہ شب و روز ترے ہیں یہ صدی تیری ہے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.