ایک لڑکی کا گیت

ایک لڑکی کا گیت
by اختر شیرانی

جہاں چڑیاں گھنیری جھاڑیوں میں چہچہاتی ہوں
جہاں شاخوں پہ کلیاں نت نئی خوشبو لٹاتی ہوں
اور ان پر کوئلیں کو کو کے میٹھے گیت گاتی ہوں
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں برسات کے موسم میں سبزہ لہلہاتا ہو
ہوا کی چھیڑ سے ایک ایک پتا تھرتھراتا ہو
جہاں چشموں کا پانی نرم لے میں گنگناتا ہو
وہاں میں ہوں میری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں اونچے پہاڑوں پر گھٹائیں گھر کے آتی ہوں
ہوا کی گود میں نیلم کی پریاں مسکراتی ہوں
اور اپنے نیلگوں ہونٹوں سے موتی میں لٹاتی ہوں
وہاں میں ہوں میری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں نہروں میں بہتا پانی موتی سا چھلکتا ہو
جہاں چاروں طرف گلزار میں سبزہ لہکتا ہو
جہاں پھولوں کی خوشبوؤں سے بن کا بن مہکتا ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں پھولوں کی خوشبوؤں سے بن کا بن مہکتا ہو
جہاں باغوں میں اور کھیتوں میں ہر یا دل لہکتا ہو
جہاں ٹیسو کے اک اک پھول میں شعلہ دہکتا ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
جہاں آموں کے ہوں باغ اور کوئی رکھوالا نہ ہو ہرگز
کوئی کتا بھی مالی نے جہاں پالا نہ ہو ہرگز
اور اماں جی سا کوئی دیکھنے والا نہ ہو ہرگز
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو
الٰہی میرے دل کی آرزو جلدی سے پوری ہو
وہاں لے چل جہاں اس فصل میں جانا ضروری ہو
مری ہو شملہ ہو سولن ہو دلہوزی مسوری ہو
وہاں میں ہوں مری ہم جولیاں ہوں اور جھولا ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse