ایک پودا اور گھاس

ایک پودا اور گھاس
by اسماعیل میرٹھی

اتفاقا ایک پودا اور گھاس
باغ میں دونوں کھڑے ہیں پاس پاس
گھاس کہتی ہے کہ اے میرے رفیق
کیا انوکھا اس جہاں کا ہے طریق
ہے ہماری اور تمہاری ایک ذات
ایک قدرت سے ہے دونوں کی حیات
مٹی اور پانی ہوا اور روشنی
واسطے دونوں کے یکساں ہے بنی
تجھ پہ لیکن ہے عنایت کی نظر
پھینک دیتے ہیں مجھے جڑ کھود کر
سر اٹھانے کی مجھے فرصت نہیں
اور ہوا کھانے کی بھی رخصت نہیں
کون دیتا ہے مجھے یاں پھیلنے
کھا لیا گھوڑے گدھے یا بیل نے
تجھ پہ منہ ڈالے جو کوئی جانور
اس کی لی جاتی ہے ڈنڈے سے خبر
اولے پالے سے بچاتے ہیں تجھے
کیا ہی عزت سے بڑھاتے ہیں تجھے
چاہتے ہیں سب تجھ کو سب کرتے ہیں پیار
کچھ پتا اس کا بتا اے دوست دار
اس سے پودے نے کہا یوں سر ہلا
گھاس سب سچا ہے تیرا یہ گلا
مجھ میں اور تجھ میں نہیں کچھ بھی تمیز
صرف سایہ اور میوہ ہے عزیز
فائدہ اک روز مجھ سے پائیں گے
سایہ میں بیٹھیں گے اور پھل کھائیں گے
ہے یہاں عزت کا سہرا اس کے سر
جس سے پہونچے نفع سب کو بیشتر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse