ایک ہی جام کو پلا ساقی
ایک ہی جام کو پلا ساقی
عدل اور ہوش لے گیا ساقی
ابر ہے مجھ کو مے پلا ساقی
اس ہوا میں نہ جی کڑھا ساقی
لب دریا پہ چاندنی دیکھوں
ہو اگر مجھ سے آشنا ساقی
صبح آیا شراب میں مخمور
نیند سے اٹھ کے مسمسا ساقی
سب کے تئیں تو نے مے پلائی ہے
میں ترستا ہی رہ گیا ساقی
قہر ہے مے اگر نہ دے اس وقت
جھوم آئی ہے کیا گھٹا ساقی
کیا مزے سے کروں چمن کی سیر
گرچہ ہو ابر اور مرا ساقی
درد سر ہے خمار سے مجھ کو
جلد لے کر شراب آ ساقی
گر تو تاباںؔ کو مے پلاوے گا
ترا احساں نہ ہوگا کیا ساقی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |