اے آہ تری قدر اثر نے تو نہ جانی
اے آہ تری قدر اثر نے تو نہ جانی
گو تج کو لقب ہم نے دیا عرش مکانی
یک خلق کی نظروں میں سبک ہو گیا لیکن
کرتا ہوں میں اب تک تری خاطر پہ گرانی
ٹک دیدۂ تحقیق سے تو دیکھ زلیخا
ہر چاہ میں آتا ہے نظر یوسف ثانی
معمور ہے جس روز سے ویرانۂ دنیا
ہر جنس کے انساں کی یہ ماٹی گئی چھانی
اک وامق نو کا ہے سمجھ چاک گریباں
کرتی ہے جو رخنہ کوئی دیوار پرانی
بلبل ہی سسکتی نہ تھی کچھ باغ میں تجھ بن
شبنم گلوں کے منہ میں چواتی رہی پانی
ہے گوش زدہ خلق مرا قصۂ جانکاہ
جب سے کہ نہ سمجھے تھا تو چڑیا کی کہانی
جوں شمع مجھے شرم ہے زنار کی اے شیخ
مالا نہ جپوں رات کو بے اشک فشانی
جس سمت نظر موج سراب آوے تو یہ جان
ہووے گی کسی زلف چلیپا کی نشانی
کیا کیا ملے لیلیٰ منشاں خاک میں سوداؔ
گو اپنے بھی محبوب کی دیکھی نہ جوانی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |