اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا

اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
by بیان میرٹھی
324868اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گابیان میرٹھی

اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
میں گریبان سے پہلے ہی نکل جاؤں گا

وہ ہٹے آنکھ کے آگے سے تو بس صورت عکس
میں بھی اس آئنہ خانے سے نکل جاؤں گا

مہر تم سوختہ میں شیشۂ آتش ہے رقیب
اس پہ ڈالو گے تجلی تو میں جل جاؤں گا

مجھ سے کہتا ہے مرا دود جگر صورت شمع
دل میں روکو گے تو میں سر سے نکل جاؤں گا

شمع ساں برسر محفل نہ جلا دیکھ مجھے
پھیل جاؤں گا ستم گر جو پگھل جاؤں گا

ٹھہر اے مہر ذرا صبح شب وصل ہے آج
بام پر دھوپ چڑھے گی تو میں ڈھل جاؤں گا

روکتا ہوں کبھی شوخی سے تو ہر طفل سرشک
رو کے کہتا ہے ابھی گھر سے نکل جاؤں گا

کار امروز بفردا مگذار اے واعظ
آج اس کوچہ میں ہوں خلد میں کل جاؤں گا

کون اٹھائے گا الٰہی شب غم کی افتاد
منہ کو آتا ہے کلیجہ کہ نکل جاؤں گا

لے کے آنکھوں میں ترا جلوہ کہاں جائے گا
غیر کو دیکھ کے میں آنکھ بدل جاؤں گا

ہر طرح ہاتھ میں ہوں گوشۂ دامن کی طرح
وہ سنبھالیں گے جو مجھ کو تو سنبھل جاؤں گا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.