اے دل آتا ہے چمن میں وہ شرابی تو پہنچ
اے دل آتا ہے چمن میں وہ شرابی تو پہنچ
لے کے پیالہ گل کا غنچہ کی گلابی تو پہنچ
بھر کے ساغر کیجیے خالی غم دوراں سے دل
اب نہ کر تاخیر اے ساقی شتابی تو پہنچ
پہنے قاصد جب تلک یک بار شرح اشتیاق
لے کر اے بیتاب دل کی اضطرابی تو پہنچ
خواہش دل ہے کہ کیجے سیر اقلیم جنوں
ٹک مدد کو اس کی اے خانہ خرابی تو پہنچ
جائے ہے تنہا شب تاریک میں وہ مہروش
آہ آتش بار لے کر ماہتابی تو پہنچ
تا نہ پھر شاعر لکھیں توصیف بالائے بتاں
مصرع موزون و شعر انتخابی تو پہنچ
جلوہ فرما آج ہے تخت چمن پر شاہ گل
لے کر اے پیک صبا چتر سحابی تو پہنچ
مشت خاک اپنی کو عالم میں نہ ضائع کر عزیز
ہند سے لے تا نجف اے بو ترابی تو پہنچ
اے محبؔ خواہش گزک کی ہو جو اس مے خوار کو
ہے ترا سینہ تو دوکان کبابی تو پہنچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |