اے دل زار لکھو جانب جاناں کاغذ
اے دل زار لکھو جانب جاناں کاغذ
حال کا لکھتے ہیں فقرا سوئے سلطاں کاغذ
مرجع گبر و مسلماں ہے وہ بت نام خدا
بھیجتے ہیں اسے ہندو و مسلماں کاغذ
ان کا مضمون بھی البتہ ہویدا ہوگا
اب جو آنے لگے اس شوخ کو پنہاں کاغذ
حیف ہے صبح وطن سے نہ ہوا وارد وقت
ہیچ گاہے بہ سر شام غریباں کاغذ
کسی کا بھی نہ جواب آیا ہمیں غربت میں
لاکھ ہم لکھے وطن کو سوئے یاراں کاغذ
وصف افشاں کا ہے کس سیم بدن کے لکھنا
کاغذی ہم کو ہے درکار زر افشاں کاغذ
اس قدر ہم نے گراں کر دئیے لکھ لکھ کے کسے
ورنہ کس مرتبہ تھے شہر میں ارزاں کاغذ
لکھتے ہم تو خط محبوب کو ہر دم نو خط
لکھنے دیتے جو ہمیں دیدۂ گریاں کاغذ
مجھ سے دیوانہ کو کیا خط وہ پری زاد لکھے
لکھتے البتہ ہیں انساں سوئے انساں کاغذ
بھیجتا ہوں میں کسی رشک گلستاں کی طرف
میرا پہنچائے مگر مرغ گلستاں کاغذ
بھیجتا ہوں میں کسی ثانیٔ بلقیس کے صوب
میرا لے جائے مگر مرغ سلیماں کاغذ
کیا مگر بھول گئے باعث جمعیت خویش
ہم کو بھیجے نہ عدم سے جو عزیزاں کاغذ
کہتے ہیں نصف ملاقات ہے مکتوب بھی یار
کبھی لکھو تو سوئے ماتم نالاں کاغذ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |