اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند

اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
by نواب امراوبہادر دلیر

اے دل ہوا ہے جیسے مرے دل کو تو پسند
آیا کوئی حسین نہ ترے روبرو پسند

ٹانکے لگاؤ حلق پہ خنجر کو پھیر کر
پھر یہ کہو ہمیں ہے یہ طوق گلو پسند

ایمان سے خدا کے لئے تو ہی سچ بتا
واعظ کسی کو بھی ہے تری گفتگو پسند

آفت ہے زمزمہ تو غضب گٹکری کی تان
کیوں ہو نہ مجھ کو تجھ سا بت خوش گلو پسند

درد فراق میں دل صد چاک کو مرے
تار نگاہ یار ہے بہر رفو پسند

روز الست سے ہوں میں سرشار واعظو
کیوں ہو نہ مجھ کو بادہ و جام و سبو پسند

درد فراق دوست پہ مرتے ہیں دل جگر
دونوں کو ہے بس ایک یہی آرزو پسند

دیکھوں گا آنکھ اوٹھا کے نہ میں حور کی طرف
مر کر بھی ہاں رہے گی یہی آرزو پسند

جھوٹی ملے شراب جو اس بت کی ساقیا
کیوں ہو نہ زاہدوں کو وہ بہر وضو پسند

ابرو سے گو لڑا کبھی تیر نگاہ سے
دل کو ہے میرے جنگ یہ اے جنگجو پسند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse