اے دیدہ خانماں تو ہمارا ڈبو سکا
اے دیدہ خانماں تو ہمارا ڈبو سکا
لیکن غبار یار کے دل سے نہ دھو سکا
تجھ حسن نے دیا نہ کبھو مفسدی کو چین
فتنہ نہ تیرے دور میں پھر نیند سو سکا
جو شمع تن ہوا شب ہجراں میں صرف اشک
پر جس قدر میں چاہے تھا اتنا نہ رو سکا
سوداؔ قمار عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا
کس منہ سے پھر تو آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |