اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
by جوشش عظیم آبادی

اے زلف اس کے منہ سے تو تو لپٹ رہی ہے
گیسو کو کاٹیو مت وہ آپ کٹ رہی ہے

ہو کس طرح میسر اس بحر حسن کی سیر
ابرو کی ایک کشتی سو بھی الٹ رہی ہے

دل دینے کی حقیقت ہم خوب جانتے ہیں
ہے غم کسی کا اس کو جو زلف لٹ رہی ہے

محروم ہم ہی ہیں اس مہماں سرا میں ورنہ
کس کس طرح کی نعمت خلقت کو بٹ رہی ہے

خالی نہیں خلل سے ؔجوشش یہ خیبر دل
دن رات موج غم کی اس سے چمٹ رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse