اے صنم تجھ برہ میں روتا ہوں
اے صنم تجھ برہ میں روتا ہوں
اشک خونیں سیں منہ کوں دھوتا ہوں
بندگی میں مجھے قبول کرو
میں تمہارا غلام ہوتا ہوں
بارش آب اشک ہے درکار
داغ ہجراں کے بیج بوتا ہوں
بولتا ہوں جو وو بلاتا ہے
تن کے پنجرے میں اس کا طوطا ہوں
مت کہو مجھ سیں قصۂ فرہاد
خواب شیریں میں آج سوتا ہوں
گوہر اشک کوں مثال سراجؔ
رشتۂ آہ میں پروتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |