اے صنم طالب نہیں وہ خلد سے گلزار کا
اے صنم طالب نہیں وہ خلد سے گلزار کا
مبتلا کو چاہیے سایہ تری دیوار کا
میہماں ہے کوئی دم کا یا کوئی ساعت کا وہ
حال اب دیکھا نہیں جاتا ترے بیمار کا
خوب صورت گوہر خوش آب کی ہر اک لڑی
سلسلہ کیسا بندھا ہے آنسوؤں کے تار کا
گھر کیا ہے اے صنم اس میں تری تصویر نے
بند ہونا غیر ممکن دیدۂ دیدار کا
زندگانی کا مزا کیا کیا نہیں دکھلا گیا
اس مرے دل کے مکاں میں چھپ کے آنا یار کا
کیجیے نذر بتاں اب شوق سے ایمان و دل
کیا پہننا سہل سمجھا آپ نے زنار کا
کھول کر پر کیف آنکھیں دیکھتے ہیں وہ ادھر
لیجئے وہ کھل گیا اب خانۂ خمار کا
دیکھنے کو تاب کیا ہو طالب دیدار کا
نور سے شمس و قمر میں تیرے ہی رخسار کا
عاصیوں کے جرم کو وہ حشر میں افشا کرے
اے جمیلہؔ کام یہ ہرگز نہیں ہشیار کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |