اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا

اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
by آرزو لکھنوی

اے مرے زخم دل نواز غم کو خوشی بنائے جا
آنکھوں سے خوں بہائے جا ہونٹوں سے مسکرائے جا

جانے سے پہلے بے وفا شب کو سحر بنائے جا
دل کو بجھا کے کیا چلا شمع کو بھی بجھائے جا

سانس کا تار ٹوٹ جائے ٹوٹے نہ تار آہ کا
ایک ہی لے پہ گائے جا ایک ہی دھن بجائے جا

حکم طلب کے منتظر شوق کی آبرو نہ کھو
سر کو قدم بنا کے چل آنکھوں سے بے بلائے جا

لے وہ دوائے تلخ ہے جس کا اثر ہے خوش گوار
پینے میں منہ بنائے جا دل میں مزے اٹھائے جا

جوشش چشم اشک بار مفت نہ رکھ کرم کا بار
میری لگی تو بجھ چکی اپنی لگی بجھائے جا

منزل بے خودیٔ شوق حد نظر سے دور ہے
پیچھے پلٹ کے بھی نہ دیکھ آگے قدم بڑھائے جا

اک ہمہ تن ہے پائے ناز اک ہمہ تن سر نیاز
یہ تو چلن جہاں کا ہے جتنا دے دبائے جا

ظرف شراب تیرے پاس ظروف سرور میرے پاس
دل تو نہیں بقدر جام دیکھ نہ منہ پلائے جا

دونوں ہیں ناز دلبری ضد میں ہے جن کی اور لطف
ایک طرف لگائے جا ایک طرف بجھائے جا

چاند میں گم چکور خود چاند کہیں چھپا ہوا
اپنی تلاش ختم کر اس کا پتہ لگائے جا

آرزوؔ اس سے کہہ دو صاف غم کا اثر ہے دیر پا
جلد ہنسی نہ آئے گی اور ابھی گدگدائے جا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse