اے یار مجھ افسردۂ ہجراں کو پہنچ تو
اے یار مجھ افسردۂ ہجراں کو پہنچ تو
اے رشک مسیحا تن بے جاں کو پہنچ تو
فریاد کش اک بوسے کا ہوں تیرے لبوں سے
اے سرمہ مسی کے مری افغاں کو پہنچ تو
گر آتش دل نالوں کی صرصر سے نہ سلگے
مت سرد ہو دامان بیاباں کو پہنچ تو
بکھرے ہیں شرر دل کے مرے دود فغاں میں
اپنے ہی سر زلف زر افشاں کو پہنچ تو
شاید کہ ہو اس باغی چمن میر کا منظور
شبنم ہو کے اے اشک گلستاں کو پہنچ تو
گر چاہ ہے سرسبزئے بختوں کی دوانے
اطفال کے پتھراؤ کی باراں کو پہنچ تو
پر زنگ ہے آئینۂ دل ہند سے عزلتؔ
گر چاہیے صف ہاں تو صفاہاں کو پہنچ تو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |