بات دل کی زبان پر آئی

بات دل کی زبان پر آئی
by ریاض خیرآبادی

بات دل کی زبان پر آئی
آفت اب میری جان پر آئی

آرزو کیوں زبان پر آئی
ان کی زلف اڑ کے کان پر آئی

کھنچتے ہی اڑ گئی وہ بادہ فروش
چوکھی مے کب دکان پر آئی

ہو گئی اونچی ان کے بام سے آہ
آفت اب آسمان پر آئی

کی فرشتوں نے جب صراحت جرم
ہنسی ان کے بیان پر آئی

جب چلی آسماں سے کوئی بلا
سیدھی میرے مکان پر آئی

غیر کا ساز بن کے راز رہا
بات سب پاسبان پر آئی

روکے رکتا نہیں ہے سیل سرشک
اب تباہی مکان پر آئی

آئی بوتل بھی میکدے سے ریاضؔ
جب گھٹا آسمان پر آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse