بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
وہ سنورتے ہیں مجھے اس کی ہے فکر
آرزو کس کی نکالی جائے گی
دل لیا پہلی نظر میں آپ نے
اب ادا کوئی نہ خالی جائے گی
آتے آتے آئے گا ان کو خیال
جاتے جاتے بے خیالی جائے گی
کیا کہوں دل توڑتے ہیں کس لیے
آرزو شاید نکالی جائے گی
گرمئ نظارہ بازی کا ہے شوق
باغ سے نرگس نکالی جائے گی
دیکھتے ہیں غور سے میری شبیہ
شاید اس میں جان ڈالی جائے گی
اے تمنا تجھ کو رو لوں شام وصل
آج تو دل سے نکالی جائے گی
فصل گل آئی جنوں اچھلا جلیلؔ
اب طبیعت کچھ سنبھالی جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |