بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات

بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
by امیر مینائی

بات کرنے میں تو جاتی ہے ملاقات کی رات
کیا بری بات ہے رہ جاؤ یہیں رات کی رات

ذرے افشاں کے نہیں کرمک شب تاب سے کم
ہے وہ زلف عرق آلود کہ برسات کی رات

زاہد اس زلف پھنس جائے تو اتنا پوچھوں
کہیے کس طرح کٹی قبلۂ حاجات کی رات

شام سے صبح تلک چلتے ہیں جام مے عیش
خوب ہوتی ہے بسر اہل خرابات کی رات

وصل چاہا شب معراج تو یہ عذر کیا
ہے یہ اللہ و پیمبر کی ملاقات کی رات

ہم مسافر ہیں یہ دنیا ہے حقیقت میں سرا
ہے توقف ہمیں اس جا تو فقط رات کی رات

چل کے اب سو رہو باتیں نہ بناؤ صاحب
وصل کی شب ہے نہیں حرف حکایات کی رات

لیلۃ القدر ہے وصلت کی دعا مانگ امیرؔ
اس سے بہتر ہے کہاں کوئی مناجات کی رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse