بادشاہت کا خاتمہ (افسانہ)

بادشاہت کا خاتمہ (1950)
by سعادت حسن منٹو
319973بادشاہت کا خاتمہ1950سعادت حسن منٹو

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن پاس ہی بیٹھا تھا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا، ’’ہیلو۔۔۔ فور فور فور فائیو سیون۔‘‘

دوسری طرف سے پتلی سی نسوانی آواز آئی، ’’سوری۔۔۔ رونگ نمبر۔‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔

یہ کتاب وہ تقریباً بیس مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ اس لیے نہیں کہ اس میں کوئی خاص بات تھی۔ دفترمیں جو ویران پڑا تھا،ایک صرف یہی کتاب تھی جس کے آخری اوراق کرم خوردہ تھے۔ایک ہفتے سے دفتر من موہن کی تحویل میں تھا کیونکہ اس کا مالک جو کہ اس کا دوست تھا، کچھ روپیہ قرض لینے کے لیے کہیں باہر گیا ہوا تھا۔من موہن کے پاس چونکہ رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے فٹ پاتھ سے عارضی طور پر وہ اس دفتر میں منتقل ہوگیا تھا اور اس ایک ہفتے میں وہ دفتر کی اکلوتی کتاب تقریباً بیس مرتبہ پڑھ چکا تھا۔

دفتر میں وہ اکیلا پڑا رہتا۔ نوکری سے اسے نفرت تھی۔ اگروہ چاہتا تو کسی بھی فلم کمپنی میں بطور فلم ڈائریکٹر کے ملازم ہو سکتا تھا۔ مگر وہ غلامی نہیں چاہتا تھا۔ نہایت ہی بے ضرر اور مخلص آدمی تھا۔ اس لیے دوست یار اس کے روزانہ اخراجات کا بندوبست کردیتے تھے۔ یہ اخراجات بہت ہی کم تھے۔ صبح کو چائے کی پیالی اور دو توس۔ دوپہر کو دو پھلکے اور تھوڑا سا سالن سارے دن میں ایک پیکٹ سگریٹ اور بس!

من موہن کا کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں تھا۔ بے حد خاموشی پسند تھا۔ جفاکش تھا۔ کئی کئی دن فاقے سے رہ سکتا تھا۔ اس کے متعلق اس کے دوست اور تو کچھ نہیں لیکن اتنا جانتے تھے کہ وہ بچپن ہی سے گھر چھوڑ چھاڑ کے نکل آیا تھا اور ایک مدت سے بمبئی کے فٹ پاتھوں پر آباد تھا۔ زندگی میں صرف اس کو ایک چیز کی حسرت تھی۔۔۔ عورت کی محبت کی۔ ’’اگرمجھے کسی عورت کی محبت مل گئی تو میری ساری زندگی بدل جائے گی۔‘‘ دوست اس سے کہتے، ’’تم کام پھر بھی نہ کرو گے۔‘‘

من موہن آہ بھر کا جواب دیتا، ’’کام۔۔۔؟ میں مجسم کام بن جاؤں گا۔‘‘

دوست اس سے کہتے، ’’تو شروع کردوکسی سے عشق۔‘‘

من موہن جواب دیتا، ’’نہیں۔۔۔ میں ایسے عشق کا قائل نہیں جومرد کی طرف سے شروع ہو۔‘‘

دوپہر کے کھانے کا وقت قریب آرہا تھا۔ من موہن نے سامنے دیوار پر کلاک کی طرف دیکھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا، ’’ہیلو۔۔۔ فور فور فور فائیو سیون۔‘‘

دوسری طرف سے پتلی سی آواز آئی، ’’فور فور فور فائیو سیون؟‘‘

برج موہن نے جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘

نسوانی آواز نے پوچھا، ’’آپ کون ہیں؟‘‘

’’من موہن۔۔۔ فرمائیے!‘‘

دوسری طرف سے آواز آئی تو من موہن نے کہا، ’’فرمائیے کس سے بات کرنا چاہتی ہیں آپ؟‘‘

آواز نے جواب دیا، ’’آپ سے!‘‘

من موہن نے ذرا حیرت سے پوچھا، ’’مجھ سے؟‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ آپ سے۔۔۔ کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے۔‘‘

من موہن سٹپٹا سا گیا، ’’جی۔۔۔؟ جی نہیں!‘‘

آواز مسکرائی، ’’آپ نے اپنا نام مدن موہن بتا یا تھا۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ من موہن۔‘‘

’’من موہن؟‘‘

چند لمحات خاموشی میں گزرگیے تو من موہن نے کہا، ’’آپ باتیں کرنا چاہتی تھیں مجھ سے؟‘‘

آواز آئی، ’’جی ہاں!‘‘

’’تو کیجیے!‘‘

تھوڑے وقفے کے بعد آواز آئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا کیا بات کروں۔۔۔ آپ ہی شروع کیجیے نہ کوئی بات۔‘‘

’’بہت بہتر‘‘ یہ کہہ کر من موہن نے تھوڑی دیر سوچا، ’’نام اپنا بتا چکا ہوں۔ عارضی طور پر ٹھکانہ میرا یہ دفتر ہے۔۔۔ پہلے فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ اب ایک ہفتہ سے اس دفتر کے بڑے میز پر سوتا ہوں۔‘‘

آواز مسکرائی، ’’فٹ پاتھ پر آپ مسہری لگا کر سوتے تھے؟‘‘

من موہن ہنسا، ’’اس سے پہلے کہ میں آپ سے مزید گفتگوکروں، میں یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ فٹ پاتھوں پر سوتے مجھے ایک زمانہ ہوگیا ہے۔ یہ دفتر تقریباً ایک ہفتے سے میرے قبضے میں ہے۔ آج کل عیش کر رہا ہوں۔‘‘

آواز مسکرائی، ’’کیسی عیش؟‘‘

من موہن نے جواب دیا، ’’ایک کتاب مل گئی تھی یہاں سے۔۔۔ آخری اوراق گم ہیں لیکن میں اسے بیس مرتبہ پڑھ چکا ہوں۔۔۔ سالم کتاب کبھی ہاتھ لگی تو معلوم ہوگا ہیرو ہیروئن کے عشق کا انجام کیا ہوا۔‘‘

آواز ہنسی، ’’آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔‘‘

من موہن نے تکلف سے کہا، ’’آپ کی ذرہ نوازی ہے۔‘‘

آواز نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا، ’’آپ کا شغل کیا ہے؟‘‘

’’شغل؟‘‘

’’میرا مطلب ہے آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘

’’کیا کرتا ہوں۔۔۔؟ کچھ بھی نہیں۔ ایک بیکار انسان کیا کرسکتا ہے۔ سارا دن آوارہ گردی کرتا ہوں۔ رات کو سو جاتا ہوں۔‘‘

آواز نے پوچھا، ’’یہ زندگی آپ کو اچھی لگتی ہے۔‘‘

من موہن سوچنے لگا۔ ’’ٹھہریئے۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں نے اس پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اب آپ نے پوچھا ہے تو میں اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ زندگی تمہیں اچھی لگتی ہے یا نہیں؟‘‘

’’کوئی جواب ملا؟‘‘

تھوڑے وقفے کے بعد من موہن نے جواب دیا، ’’جی نہیں۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ایسی زندگی مجھے اچھی لگتی ہی ہوگی۔ جب کہ ایک عرصے سے بسر کررہا ہوں۔‘‘

آواز ہنسی۔ من موہن نے کہا، ’’آپ کی ہنسی بڑی مترنم ہے۔‘‘

آواز شرما گئی۔ ’’شکریہ!‘‘ اور سلسلہ گفتگو منقطع کردیا۔

من موہن تھوڑی دیر ریسیور ہاتھ میں لیے کھڑا رہا۔ پھر مسکرا کر اسے رکھ دیا اور دفتر بند کرکے چلا گیا۔دوسرے روز صبح آٹھ بجے جب کہ من موہن دفتر کے بڑے میز پر سو رہا تھا، ٹیلیفون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ جمائیاں لیتے ہوئے اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا، ’’ہلو فور فورفور فائیو سیون۔‘‘

دوسری طرف سے آواز آئی، ’’آداب عرض من موہن صاحب!‘‘

’’آداب عرض!‘‘ من موہن ایک دم چونکا۔ ’’اوہ، آپ۔۔۔ آداب عرض۔‘‘

’’تسلیمات!‘‘

آواز آئی، ’’آپ غالباً سورہے تھے؟‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ یہاں آکر میری عادات کچھ بگڑ رہی ہیں۔ واپس فٹ پاتھ پر گیا تو بڑی مصیبت ہو جائے گی۔‘‘

آواز مسکرائی۔’’کیوں؟‘‘

’’وہاں صبح پانچ بجے سے پہلے پہلے اٹھنا پڑتا ہے۔‘‘

آواز ہنسی۔ من موہن نے پوچھا، ’’کل آپ نے ایک دم ٹیلی فون بند کردیا۔‘‘

آواز شرمائی۔ ’’آپ نے میری ہنسی کی تعریف کیوں کی تھی۔‘‘

من موہن نے کہا، ’’لو صاحب، یہ بھی عجیب بات کہی آپ نے۔۔۔ کوئی چیز جو خوبصورت ہو تو اس کی تعریف نہیں کرنی چاہیے؟‘‘

’’بالکل نہیں۔‘‘

’’یہ شرط آپ مجھ پر عائد نہیں کرسکتیں۔۔۔ میں نے آج تک کوئی شرط اپنے اوپر عائد نہیں ہونے دی۔ آپ ہنسیں گی تو میں ضرور تعریف کروں گا۔‘‘

’’میں ٹیلی فون بند کردوں گی۔‘‘

’’بڑے شوق سے۔‘‘

’’آپ کو میری ناراضگی کا کوئی خیال نہیں۔‘‘

’’میں سب سے پہلے اپنے آپ کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ اگر میں آپ کی ہنسی کی تعریف نہ کروں تو میرا ذوق مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔۔۔ یہ ذوق مجھے بہت عزیز ہے!‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اس کے بعد دوسری طرف سے آواز آئی، ’’معاف کیجیے گا، میں ملازمہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔ آپ کا ذوق آپ کو بہت عزیز ہے۔۔۔ ہاں یہ تو بتائیے آپ کو شوق کس چیز کا ہے؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’یعنی۔۔۔ کوئی شغل۔۔۔ کوئی کام۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ کو آتا کیا ہے؟‘‘

من موہن ہنسا، ’’کوئی کام نہیں آتا۔۔۔ فوٹوگرافی کا تھوڑا سا شوق ہے۔‘‘

’’یہ بہت اچھا شوق ہے۔‘‘

’’اس کی اچھائی یا برائی کا میں نے کبھی نہیں سوچا۔‘‘

آواز نے پوچھا، ’’کیمرہ تو آپ کے پاس بہت اچھا ہوگا؟‘‘

من موہن ہنسا، ’’میرے پاس اپنا کوئی کیمرہ نہیں۔ دوست سے مانگ کر شوق پورا کرلیتا ہوں۔ اگر میں نے کبھی کچھ کمایا تو ایک کیمرہ میری نظر میں ہے۔ وہ خریدوں گا۔‘‘

آواز نے پوچھا، ’’کون سا کیمرہ؟‘‘

من موہن نے جواب دیا، ’’ایگزکٹا۔ ریفلکس کیمرہ ہے۔ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اس کے بعد آواز آئی، ’’میں کچھ سوچ رہی تھی۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’آپ نے میرا نام پوچھا نہ ٹیلی فون نمبر دریافت کیا۔‘‘

’’مجھے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’نام آپ کا کچھ بھی ہو کیا فرق پڑتاہے۔۔۔ آپ کو میرا نمبر معلوم ہے بس ٹھیک ہے۔۔۔ آپ گر چاہیں گی تو میں آپ کو ٹیلی فون کروں تو نام اور نمبر بتا دیجیے گا۔‘‘

’’میں نہیں بتا ؤں گی۔‘‘

’’لو صاحب یہ بھی خوب رہی۔۔۔ میں جب آپ سے پوچھوں گا ہی نہیں تو بتانے نہ بتانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔‘‘

آواز مسکرائی، ’’آپ عجیب و غریب آدمی ہیں۔‘‘

من موہن مسکرا دیا، ’’جی ہاں کچھ ایسا ہی آدمی ہوں۔‘‘

چند سیکنڈ خاموشی رہی۔ ’’آپ پھر سوچنے لگیں۔‘‘

’’جی ہاں، کوئی اور بات اس وقت سوجھ نہیں رہی تھی۔‘‘

’’تو ٹیلی فون بند کردیجیے۔۔۔ پھر سہی۔‘‘

آواز کسی قدر تیکھی ہوگئی، ’’آپ بہت روکھے آدمی ہیں۔۔۔ ٹیلی فون بند کردیجیے۔ لیجیے میں بند کرتی ہوں۔‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور مسکرانے لگا۔

آدھے گھنٹے کے بعد جب من موہن ہاتھ دھو کر کپڑے پہن کر باہر نکلنے کے لیے تیار ہوا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے ریسیور اٹھایا اورکہا، ’’فور فور فور فائیو سیون!‘‘

آواز آئی، ’’مسٹر من موہن؟‘‘

من موہن نے جواب دیا، ’’جی ہاں من موہن۔ ارشاد؟‘‘

آواز مسکرائی۔ ’’ارشاد یہ ہے کہ میری ناراضگی دور ہوگئی ہے۔‘‘

من موہن نے بڑی شگفتگی سے کہا، ’’مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے۔‘‘

’’ناشتہ کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ آپ کے ساتھ بگاڑنی نہیں چاہیے۔۔۔ ہاں آپ نے ناشتہ کرلیا؟‘‘

’’جی نہیں، باہر نکلنے ہی والا تھا کہ آپ نے ٹیلی فون کیا۔‘‘

’’اوہ۔۔۔ تو آپ جائیے۔‘‘

’’جی نہیں، مجھے کوئی جلدی نہیں، میرے پاس آج پیسے نہیں ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ آج ناشتہ نہیں ہوگا۔‘‘

’’آپ کی باتیں سن کر۔۔۔ آپ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے ایسی باتیں آپ اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو دکھ ہوتا ہے؟‘‘

من موہن نے ایک لمحہ سوچا، ’’جی نہیں۔۔۔ میرا اگر کوئی دکھ درد ہے تو میں اس کا عادی ہو چکا ہوں۔‘‘

آواز نے پوچھا، ’’میں کچھ روپے آپ کو بھیج دوں؟‘‘

من موہن نے جواب دیا، ’’بھیج دیجیے۔ میرے فنانسروں میں ایک آپ کا بھی اضافہ ہو جائے گا!‘‘

’’نہیں، میں نہیں بھیجوں گی!‘‘

’’آپ کی مرضی!‘‘

’’میں ٹیلی فون بند کرتی ہوں۔‘‘

’’بہتر!‘‘

من موہن نے ریسیور رکھ دیا اور مسکراتا ہوا دفتر سے نکل گیا۔ رات کو دس بجے کے قریب واپس آیا اور کپڑے بدل کر میز پر لیٹ کر سوچنے لگا کہ یہ کون ہے جو اسے فون کرتی ہے۔ آواز سے صرف اتنا پتہ چلتا تھا کہ جوان ہے۔ ہنسی بہت ہی مترنم تھی۔ گفتگو سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہے۔ بہت دیر تک وہ اس کے متعلق سوچتا رہا۔ ادھر کلاک نے گیارہ بجائے ادھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن نے ریسیور اٹھایا۔ ’’ہلو۔‘‘

دوسری طرف سے وہی آواز آئی، ’’مسٹر من موہن۔‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ من موہن۔۔۔ ارشاد۔‘‘

’’ارشاد یہ ہے کہ میں نے آج دن میں کئی مرتبہ رِنگ کیا۔ آپ کہاں غائب تھے؟‘‘

’’صاحب بیکار ہوں، لیکن پھر بھی کام پر جاتا ہوں۔‘‘

’’کس کام پر؟‘‘

’’آوارہ گردی۔‘‘

’’واپس کب آئے؟‘‘

’’دس بجے۔‘‘

’’اب کیا کر رہے تھے؟‘‘

’’میز پر لیٹا آپ کی آواز سے آپ کی تصویر بنا رہا تھا۔‘‘

’’بنی؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔۔۔ میں بڑی بد صورت ہوں۔‘‘

’’معاف کیجیے گا، اگر آپ واقعی بد صورت ہیں تو ٹیلی فون بند کردیجیے، بدصورتی سے مجھے نفرت ہے۔‘‘

آواز مسکرائی، ’’ایسا ہے تو چلیے میں خوبصورت ہوں، میں آپ کے دل میں نفرت نہیں پیدا کرنا چاہتی۔‘‘

تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ من موہن نے پوچھا، ’’کچھ سوچنے لگیں؟‘‘

آواز چونکی ’’جی نہیں۔۔۔ میں آپ سے پوچھنے والی تھی کہ۔۔۔‘‘

’’سوچ لیجیے اچھی طرح۔‘‘

آواز ہنس پڑی۔ ’’آپ کو گانا سناؤں؟‘‘

’’ضرور۔۔۔‘‘

’’ٹھہرئیے!‘‘

گلہ صاف کرنے کی آواز آئی۔ پھر غالب کی یہ غزل شروع ہوئی

نکتہ چیں ہے غمِ دل۔۔۔

سہگل والی نئی دھن تھی۔ آواز میں درد اور خلوص تھا۔ جب غزل ختم ہوئی تو من موہن نے داد دی۔ ’’بہت خوب۔۔۔ زندہ رہو۔‘‘

آواز شرما گئی۔ ’’شکریہ!‘‘ اور ٹیلی فون بند کردیا۔

دفتر کے بڑے میز پر من موہن کے دل و دماغ میں ساری رات غالب کی غزل گونجتی رہی۔ صبح جلدی اٹھا اور ٹیلی فون کا انتظار کرنے لگا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے کرسی پر بیٹھا رہا مگر ٹیلی فون کی گھنٹی نہ بجی۔ جب مایوس ہو گیا تو ایک عجیب سی تلخی اس نے اپنے حلق میں محسوس کی۔ اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس کے بعد میز پر لیٹ گیا اور کڑھنے لگا۔ وہی کتاب جس کو وہ متعدد مرتبہ پڑھ چکا تھا اٹھائی اور ورق گردانی شروع کردی۔ یونہی لیٹے لیٹے شام ہوگئی۔ تقریباً سات بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ من موہن نے ریسیور اٹھایا اور تیزی سے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘

وہی آواز آئی، ’’میں!‘‘

من موہن کا لہجہ تیز رہا، ’’اتنی دیر تم کہاں تھیں؟‘‘

آواز لرزی، ’’کیوں؟‘‘

’’میں صبح سے یہاں جھک مار رہا ہوں۔۔۔ ناشتہ کیا ہے نہ دوپہر کا کھانا کھایا ہے حالانکہ میرے پاس پیسے موجود تھے۔‘‘

آواز آئی، ’’میری جب مرضی ہوگی ٹیلی فون کروں گی۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘

من موہن نے بات کاٹ کر کہا، ’’دیکھو جی یہ سلسلہ بند کرو۔ ٹیلی فون کرنا ہے تو ایک وقت مقرر کرو۔ مجھ سے انتظار برداشت نہیں ہوتا۔‘‘

آواز مسکرائی۔ ’’آج کی معافی چاہتی ہوں۔ کل سے باقاعدہ صبح اور شام فون آیا کرے گا آپ کو۔‘‘

’’یہ ٹھیک ہے!‘‘

آواز ہنسی ’’مجھے معلوم نہیں تھا آپ اس قدر بگڑے دل ہیں۔‘‘

من موہن مسکرایا۔ ’’معاف کرنا۔ انتظار سے مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اور جب مجھے کسی بات سے کوفت ہوتی ہے تو اپنے آپ کو سزا دینا شروع کردیتا ہوں۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’صبح تمہارا ٹیلی فون نہ آیا۔۔۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں چلا جاتا۔۔۔ لیکن بیٹھا دن بھر اندر ہی اندر کڑھتا رہا۔ بچپنا ہے صاف۔‘‘

آواز ہمدردی میں ڈوب گئی، ’’کاش مجھ سے یہ غلطی نہ ہوتی۔۔۔ میں نے قصداً صبح ٹیلی فون نہ کیا!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یہ معلوم کرنے کے لیے آپ انتظار کریں گے یا نہیں؟‘‘

من موہن ہنسا۔ ’’بہت شریر ہو تم۔۔۔ اچھا اب ٹیلی فون بند کرو۔ میں کھانا کھانے جا رہا ہوں۔‘‘

’’بہتر، کب تک لوٹیے گا؟‘‘

’’آدھے گھنٹے تک۔‘‘

من موہن آدھے گھنٹے کے بعد کھانا کھا کر لوٹا تو اس نے فون کیا۔ دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد اس نے غالب کی ایک غزل سنائی۔ من موہن نے دل سے داد دی۔ پھر ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔

اب ہر روز صبح اور شام من موہن کو اس کا ٹیلی فون آتا۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ ٹیلی فون کی طرف لپکتا۔ بعض اوقات گھنٹوں باتیں جاری رہتیں۔ اس دوران میں من موہن نے اس سے ٹیلی فون کا نمبر پوچھا، نہ اس کا نام۔ شروع شروع میں اس نے اس کی آواز کی مدد سے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی تھی مگر اب وہ جیسے آواز ہی سے مطمئن ہوگیا تھا۔ آوازہی شکل تھی۔ آواز ہی صورت تھی۔ آواز ہی جسم تھا۔ آواز ہی روح تھی۔

ایک دن اس نے پوچھا، ’’موہن۔تم میرا نام کیوں نہیں پوچھتے؟‘‘

من موہن نے مسکرا کر کہا، ’’تمہارا نام تمہاری آواز ہے۔‘‘

’’جو کہ بہت مترنم ہے۔‘‘

’’اس میں کیا شک ہے؟‘‘

ایک دن وہ بڑا ٹیڑھا سوال کر بیٹھی۔ ’’موہن تم نے کبھی کسی لڑکی سے محبت کی ہے؟‘‘

من موہن نے جواب دیا، ’’نہیں!‘‘

’’کیوں؟‘‘

موہن ایک دم اداس ہوگیا، ’’اس کیوں کا جواب چند لفظوں میں نہیں دے سکتا۔ مجھے اپنی زندگی کا سارا ملبہ اٹھانا پڑے گا۔۔۔ اگر کوئی جواب نہ ملے تو بڑی کوفت ہوگی۔‘‘

’’جانے دیجیے۔‘‘

ٹیلی فون کا رشتہ قائم ہوئے تقریباً ایک مہینہ ہوگیا۔ بلاناغہ دن میں دو مرتبہ اس کا فون آتا۔ من موہن کو اپنے دوست کا خط آیا کہ قرضے کا بندوبست ہوگیا ہے۔ سات آٹھ روز میں وہ بمبئی پہنچنے والا ہے۔ من موہن یہ خط پڑھ کر افسردہ ہوگیا۔ اس کا ٹیلیفون آیا تو من موہن نے اس سے کہا میری دفتر کی بادشاہی اب چند دنوں کی مہمان ہے۔

اس نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

من موہن نے جواب دیا۔ ’’قرضے کا بندوبست ہوگیا ہے۔۔۔ دفتر آباد ہونے والا ہے۔‘‘

’’تمہارے کسی اور دوست کے گھر میں ٹیلی فون نہیں۔‘‘

’’کئی دوست ہیں جن کے ٹیلی فون ہیں۔ مگر میں تمہیں ان کا نمبر نہیں دے سکتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں نہیں چاہتا تمہاری آواز کوئی اور سنے۔‘‘

’’وجہ؟‘‘

’’میں بہت حاسد ہوں۔‘‘

وہ مسکرائی۔’’یہ تو بڑی مصیبت ہوئی۔‘‘

’’کیا کیا جائے؟‘‘

’’آخری دن جب تمہاری بادشاہت ختم ہونے والی ہو گی۔ میں تمہیں اپنا نمبر دوں گی۔‘‘

’’یہ ٹھیک ہے!‘‘

من موہن کی ساری افسردگی دور ہوگئی۔ وہ اس دن کا انتظار کرنے لگا کہ دفتر میں اس کی بادشاہت ختم ہو۔ اب پھر اس نے اس کی آواز کی مدد سے اپنے تخیل کے پردے پر اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش شروع کی۔ کئی تصویریں بنیں مگر وہ مطمئن نہ ہوا۔ اس نے سوچا چند دنوں کی بات ہے۔ اس نے ٹیلی فون نمبر بتا دیا تووہ اسے دیکھ بھی سکے گا۔ اس کا خیال آتے ہی اس کا دل و دماغ سُن ہوجاتا۔ ’’میری زندگی کا وہ لمحہ کتنا بڑا لمحہ ہوگا جب میں اس کو دیکھوں گا۔‘‘

دوسرے روز جب اس کا ٹیلی فون آیا تو من موہن نے اس سے کہا، ’’تمہیں دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوگیا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تم نے کہا تھا کہ آخری دن جب یہاں میری بادشاہت ختم ہونے والی ہوگی، تو تم مجھے اپنا نمبر بتا دوگی۔‘‘

’’کہا تھا۔‘‘

’’اس کا یہ مطلب ہے تم مجھے اپنا ایڈریس دے دو گی۔۔۔ میں تمہیں دیکھ سکوں گا۔‘‘

’’تم مجھے جب چاہو دیکھ سکتے ہو۔۔۔ آج ہی دیکھ لو۔‘‘

نہیں نہیں۔۔۔ پھر کچھ سوچ کر کہا، ’’میں ذرا اچھے لباس میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔ آج ہی ایک دوست سے کہہ رہا ہوں۔ وہ مجھے سوٹ دلوا دے گا۔‘‘

وہ ہنس پڑی۔ ’’بالکل بچے ہو تم۔۔۔ سنو۔ جب تم مجھ سے ملو گے تو میں تمہیں ایک تحفہ دوں گی۔‘‘

من موہن نے جذباتی انداز میں کہا، ’’تمہاری ملاقات سے بڑھ کر اور کیا تحفہ ہوسکتا ہے؟‘‘

’’میں نے تمہارے لیے ایگزکٹا کیمرہ خرید لیا ہے۔‘‘

’’اوہ!‘‘

’’اس شرط پر دوں گی کہ پہلے میرا فوٹو اتارو۔‘‘

من موہن مسکرایا۔ ’’اس شرط کا فیصلہ ملاقات پر کروں گا۔‘‘

تھوڑی دیر اور گفتگوہوئی اس کے بعد ادھر سے وہ بولی، ’’میں کل اور پرسوں تمہیں ٹیلی فون نہیں کرسکوں گی۔‘‘

من موہن نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

’’میں اپنے عزیزوں کے ساتھ کہیں باہر جارہی ہوں۔ صرف دو دن غیر حاضر رہوں گی۔ مجھے معاف کردینا۔‘‘

یہ سننے کے بعد من موہن سارا دن دفتر ہی میں رہا۔ دوسرے دن صبح اٹھا تو اس نے حرارت محسوس کی۔ سوچا کہ یہ اضمحلال شاید اس لیے ہے کہ اس کا ٹیلی فون نہیں آئےگا لیکن دوپہر تک حرارت تیز ہوگئی۔ بدن تپنے لگا۔ آنکھوں سے شرارے پھوٹنے لگے۔ من موہن میز پر لیٹ گیا۔ پیاس بار بارستاتی تھی۔ اٹھتا اور نل سے منہ لگا کر پانی پیتا۔ شام کے قریب اسے اپنے سینے پر بوجھ محسوس ہونے لگا۔ دوسرے روز وہ بالکل نڈھال تھا۔ سانس بڑی دقت سے آتا تھا۔ سینے کی دکھن بہت بڑھ گئی تھی۔

کئی بار اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہوئی۔ بخار کی شدت میں وہ گھنٹوں ٹیلی فون پر اپنی محبوب آواز کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ شام کو اس کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے کلاک کی طرف دیکھا، اس کے کانوں میں عجیب و غریب آوازیں گونج رہی تھیں۔ جیسے ہزار ہا ٹیلی فون بول رہے ہیں، سینے میں گھنگھرو بج رہے تھے۔ چاروں طرف آوازیں ہی آوازیں تھیں۔ چنانچہ جب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو اس کے کانوں تک اس کی آواز نہ پہنچی۔ بہت دیر تک گھنٹی بجتی رہی۔ ایک دم من موہن چونکا۔ اس کے کان اب سُن رہے تھے۔ لڑکھڑاتا ہوا اٹھا اور ٹیلی فون تک گیا۔ دیوار کا سہارالے کر اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریسیور اٹھایا اور خشک ہونٹوں پر لڑکی جیسی زبان پھیر کر کہا، ’’ہلو‘‘

دوسری طرف سے وہ لڑکی بولی، ’’ہلو۔۔۔ موہن؟‘‘

من موہن کی آواز لڑکھڑائی۔ ’’ہاں موہن!‘‘

’’ذرا اونچی بولو۔۔۔‘‘

من موہن نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر وہ اس کے حلق ہی میں خشک ہوگیا۔

آواز آئی، ’’میں جلدی آگئی۔۔۔ بڑی دیر سے تمہیں رنگ کر رہی ہوں۔۔۔ کہاں تھے تم؟‘‘

من موہن کا سرگھومنے لگا۔

آواز آئی، ’’کیا ہوگیا ہے تمہیں؟‘‘

من موہن نے بڑی مشکل سے اتنا کہا، ’’میری بادشاہت ختم ہوگئی ہے آج۔‘‘

اس کے منہ سے خون نکلا اور ایک پتلی لکیر کی صورت میں گردن تک دوڑتا چلا گیا۔

آواز آئی، ’’میرا نمبر نوٹ کرلو۔۔۔ فائیو نوٹ تھری ون فور، فائیو نوٹ تھری ون فور۔۔۔ صبح فون کرنا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ریسیور رکھ دیا۔ من موہن اوندھے منہ ٹیلی فون پر گرا۔۔۔ اس کے منہ سے خون کے بلبلے پھوٹنے لگے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.