بادۂ وحشت اثر سے مست ویرانے میں تھا
بادۂ وحشت اثر سے مست ویرانے میں تھا
ایک عالم بے خودی کا تیرے دیوانے میں تھا
جلوہ فرماتا وہ کعبے میں نہ بت خانے میں تھا
ڈھونڈھتا تھا جس کو میں وہ دل کے کاشانے میں تھا
حسرتیں تھیں رقص میں ساز طرب تھی آہ دل
عیش دنیا بھر کا میرے ایک غم خانے میں تھا
پوچھتا کیا ہے حقیقت اس کی مجھ سے محتسب
کیا بتاؤں میں تجھے کیا میرے پیمانے میں تھا
جوش وحشت میں تھی اس کی جستجو دونوں طرف
اک قدم میرا تھا گھر میں ایک ویرانے میں تھا
ہر گھڑی تھی جس کے جلوہ کی نگاہوں کو تلاش
نور اس کا آنکھ میں وہ دل کے کاشانے میں تھا
سرخ ڈورے آ گئے پیتے ہی ساقی آنکھ میں
یہ مئے گل رنگ تھی یا خون پیمانے میں تھا
لا سکا اے شمع دم بھر بھی نہ تاب سوز عشق
خاک ہونے کے سوا کیا خاک پروانے میں تھا
اور کیا کعبے میں ملتا سنگ اسود کے سوا
ڈھونڈھتا تھا جس کو تو زاہد وہ بت خانے میں تھا
نغمۂ حق کی صدا ہر دم کئے دیتی تھی مست
کس مزے کا اک ترنم دل کے پیمانے میں تھا
میری راحت کا ذریعہ تھیں مری آزادیاں
وہ قدم تھا عیش خانے میں جو ویرانے میں تھا
کوند کر گرتی تھیں دل پر ہر طرف سے بجلیاں
اک نیا انداز ان کے تیغ چمکانے میں تھا
چشم حق بیں کے لئے ہیں ایک ہی دیر و حرم
صاف کعبے میں نظر آیا جو بت خانے میں تھا
اب وہ رنگ بادۂ الفت الٰہی کیا ہوا
جوشش حب وطن جو دل کے پیمانے میں تھا
کیا کہوں کس شے نے رونقؔ کر دیا مست الست
تھا وہ اک رنگ مئے عرفاں جو پیمانے میں تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |