باردہ شمالی

باردہ شمالی (1955)
by سعادت حسن منٹو
325066باردہ شمالی1955سعادت حسن منٹو

دوگوگلز آئیں۔ تین بش شرٹوں نے ان کا استقبال کیا۔ بش شرٹیں دنیا کے نقشے بنی ہوئی تھیں، ان پرپرندے، چرندے، درندے، پھول بوٹے اور کئی ملکوں کی شکلیں بنی ہوئی تھیں۔

دونوں گوگلز نے اپنی کتابیں میز پررکھیں۔ اپنے ڈسٹ کور اتارے اور بش شرٹوں کے بٹن بن گئیں۔ایک گوگل نے اس بش شرٹ سے جو خالص امریکی تھی، کہا،’’آپ کا لباس بڑا واہیات ہے۔ ‘‘وہ بش شرٹ ہنسا،’’ تمہارے گوگلز بڑے واہیات ہیں۔ اسے لگا کرتم ایسی دکھائی دیتی ہو جیسے روشن دِن اندھیری رات بن گیا ہے۔‘‘اس اندھیری رات نے اس بش شرٹ سے کہا، ’’میں تو چاندنی رات ہوں۔‘‘ امریکی بش شرٹ نے اس کو ایک کوہ ہمالہ پیش کیا جو بہت ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔

اس نے چمچ سے اس کوہ ہمالہ کو سر کرلیا۔ لیکن اس مہم کے دوران میں اس کو بڑی کوفت ہوئی۔۔۔ وہ برفوں کی عادی نہیں تھی۔ وہ مجبوراً اپنی سہیلی دوسری گوگلز کے ساتھ آگئی تھی کہ وہاں اس کا چہیتیا بش شرٹ مل گیا۔دوسری گوگلز اپنے بش شرٹ سے علیحدہ باتیں کررہی تھی۔

’’آج تم اتنی حسین کیوں دکھائی دے رہی ہو؟‘‘

’’ مجھے کیا معلوم؟‘‘

’’اپنی چقیں اتار دو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’مجھے تمہاری آنکھیں نظر نہیں آتیں۔‘‘

’’میرا دل تو تمہیں نظر آرہا ہوگا۔‘‘

’’نظر آتا رہا ہے۔۔۔ نظر آتا رہے گا۔۔۔ لیکن مجھے تمہاری آنکھوں پر یہ غلاف پسند نہیں۔‘‘

’’ تیز روشنی مجھے پسند نہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’بس نہیں۔۔۔ تمہاری بش شرٹ بھی مجھے پسند نہیں۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ اس لیے کہ اس کا ڈیزائن بہت بے ہودہ ہے۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئس کریم میں کیڑے مکوڑے چل رہے ہیں۔‘‘

’’تم کھا تو چکی ہو۔‘‘

’’میں نے تو صرف چکھی ہے، کھائی کب ہے؟‘‘

’’ آپ ’باردہ شمالی‘ میں صرف آئس کریم چکھنے کے لیے ہی آتی ہیں؟‘‘

’’ آپ مجبورکرتے ہیں تو میں آتی ہوں، ورنہ مجھے اس جگہ سے کوئی رغبت نہیں۔‘‘

’’میں یہ چاہتا تھا کہ ہم دونوں مل کر کوئی مہم سر کریں۔‘‘

’’کون سی مہم؟‘‘

’’بے شمار مہمیں ہیں۔۔۔ لیکن ایک سب سے بڑی ہے۔‘‘

’’کون سی؟‘‘

’’کسی آتش فشاں پہاڑ کے اندر کود جائیں اور وہاں کے حالات معلوم کریں۔‘‘

’’میں تیار ہوں۔۔۔ لیکن پھر میں یہاں آکر آئس کریم ضرور کھاؤں گی۔‘‘

’’میں کھلاؤں گا تمہیں۔‘‘

دونوں بانہوں میں بانہیں ڈالے ایک ایسی دوزخ میں چلے گئے جو آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔ اس گوگلز کی ساری کتابیں اس بش شرٹ کی لائبریری میں داخل ہوگئیں۔دوسری گوگلز نے اپنی بش شرٹ کو اپنے بلاؤز کی ساری کتابیں پڑھائیں مگر اس کی سمجھ میں نہ آئیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بش شرٹ کسی گھٹیا قسم کے درزی کی سلی ہوئی ہے۔

اس نے’’باردہ شمالی‘‘ میں اس سے کہا، ’’تم آئس کریم نہ کھایا کرو۔۔۔ ہم آئندہ’’ آتشیں ہاؤس ‘‘میں جایا کریں گے۔۔۔‘‘دوسری گوگلز کلبلانے لگی۔ اس گلگاہٹ میں اس نے اپنی بش شرٹ کے کاج بنانے شروع کردیے اور ان میں کئی پھول ٹانک دیے۔ یہ بش شرٹ گھٹیا قسم کے درزی کی سلی ہوئی نہیں تھی، اصل میں اس کا کپڑا کھردرا تھا، جیسے ٹاٹ ہو، اس میں دوسری گوگلز نے اپنی مخمل کے کئی پیوند لگائے، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

وہ ’’آتشیں ہاؤس‘‘ میں بھی کئی مرتبہ گئے، وہاں انہوں نے کئی گلاس پگھلی ہوئی آگ کے پیےمگر کوئی تسکین نہ ہوئی۔دوسری گوگلز حیران تھی کہ اس کا بش شرٹ جس کے لیے اس نے اپنے بلاؤز کے تمام بخیے ادھیڑ دیے، اس سے ملتفت کیوں نہیں ہوتا۔ وہ اس کی ہر سلوٹ سے پیار کرتی تھی۔ لیکن وہ’’باردہ شمالی‘‘ میں اور ’’آتشیں ہاؤس‘‘ میں اس کے خوبصورت فریم سے کوئی دلچسپی لیتا ہی نہیں تھا۔عجیب بات ہے کہ وہ باردہ شمالی میں گرم ہو جاتا اور آتشیں ہاؤس میں اولاسا بن جاتا۔ دوسری بش شرٹ بہت حیران تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے!

اس نے پہلی گوگلز کو جو اس کی سہیلی تھی، ایک خط لکھا اور اس کو اپنا سارا دکھ بتایا۔ اس نے جواب میں یہ لکھا،’’تم کچھ فکر نہ کرو۔ یہ بش شرٹ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کبھی سکڑ جاتے ہیں۔ کبھی پھیل جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تمہاری لانڈری میں بھی کوئی نقص ہے۔ اسے دورکرنے کی کوشش کرو۔ تمہاری استری بھی ایسا معلوم ہوتا ہے، خراب ہوگئی ہے، اسے ٹھیک کراؤ۔ کہیں کرنٹ تو نہیں مارتی؟

دوسری گوگلز نے اسے لکھا، ’’کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری استری کرنٹ مارتی ہے۔۔۔ میرا بش شرٹ گیلا ہو چکا ہوتا ہے کہ میری استری گرم ہوتی ہے، میں جب اس پر پھیرتی ہوں تو مجھے بجلی کے دھچکے لگتے ہیں۔‘‘ جواب میں اس کی سہیلی نے لکھا، ’’میں تمہاری استری کی خرابی سمجھ گئی ہوں۔ نیا پلگ بھیج رہی ہوں، اس کو لگا کر دیکھو، شاید یہ خرابی دور ہو جائے۔‘‘

وہ پلگ آیا۔ بڑا خوبصورت تھا۔ مگر جب اس نے اپنی استری میں لگانا چاہا تو فٹ نہ ہوا۔ کنڈم کرکے اس نے واپس کردیا، اور اپنے بش شرٹ کی رفو گری شروع کردی۔یہ کام بڑا نازک تھا مگر اس دوسری گوگلز نے بڑی محنت سے کیا پر نتیجہ پھر بھی صفر رہا۔۔۔ وہ ’’باردہ شمالی‘‘ میں گئی۔ وہاں اس نے پانچ کوہ ہمالہ چمچوں سے سر کیے۔۔۔ وہاں سے یخ بستہ ہو کے اٹھی اور ایک نہایت واہیات بش شرٹ کے ساتھ ’’آتشیں ہاؤس‘‘ جا کر اس نے دس جوالا مکھی نگلے اور واپس اپنے چمڑے کے تھیلے میں آگئی۔

دوسرے دن وہ پھر اپنے چہیتے بش شرٹ سے ملی۔ اس کو اس نے بتایا کہ وہ رات ایک نہایت لغو قسم کے بش شرٹ کے ساتھ ’’آتشیں ہاؤس‘‘ گئی تھی، اس نے قطعاً برا نہ مانا، وہ سوچنے لگی کہ یہ کیسا کلف لگا بش شرٹ ہے جس کی جیبوں میں رشک اور حسد کے سکے کھنکھناتے ہی نہیں۔

اس نے پھر اپنی سہیلی گوگلز کو خط لکھا اور سنایا، ’’تمہارا بھیجا ہوا پلگ میری استری میں لگا ہی نہیں۔۔۔ میں نے واپس بھیج دیا تھا۔ امید ہے کہ تمہیں مل گیا ہوگا۔۔۔ اب مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے کہ میں کیا کروں۔۔۔ وہ میرا بش شرٹ۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا شے ہے۔۔۔ خدا کے لیے آؤ۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں، اپنے بش شرٹ کو میرا سلام کہنا، میرا خیال ہے کہ تم اس کو ہر رات پہنتی ہو۔۔۔ اس کا کپڑا بڑا ملائم ہے۔‘‘

اس کی سہیلی، اس کے بلاوے پر آگئی، اس کے ساتھ کا اپنا بش شرٹ نہیں تھا۔۔۔ دونوں بہت خوش تھیں، ان کے شیشے آپس میں ٹکرائے۔۔۔ بڑی کھنکیں پیدا ہوئیں، جیسے کئی کانچ کی چوڑیاں ایک کلائی میں پڑی بج رہی ہیں۔اس کی سہیلی گوگلز کا فریم سنہرا تھا۔ اسے دیکھ کر دوسری کو تھوڑا سا رشک ہوا، مگر اس نے اس جذبے کو فوراً دور کردیا اور اس سنہرے فریم کا تعارف اپنے ’’بش شرٹ‘‘ سے کرایا تاکہ وہ اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرے اور بتائے کہ اس پر استری کس طرح کرنی چاہیےتاکہ اس کی سلوٹیں دورہو جائیں۔

وہ اپنی سہیلی کے بش شرٹ سے بڑے تپاک سے ملی، اس نے بڑے غور سے اس کا ٹانکہ ٹانکہ دیکھا، مگر اسے کوئی عیب نظر نہ آیا۔ وہ اس کے اپنے بش شرٹ کے مقابلے میں کئی درجے اچھا سلا ہوا تھا۔ان دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں، آخر ایک دن انہوں نے ’’باردہ شمالی‘‘ جانے کا پروگرام بنایا۔ وہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ اس بش شرٹ کا ردِّ عمل کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی سہیلی گوگلز سے کہہ گئی تھی کہ وہ اپنے شیشوں میں سے اس کے بش شرٹ کو دیکھنا چاہتی ہے۔

جب وہ ’’باردہ شمالی‘‘ میں گئے تووہاں اس بش شرٹ کو آگ لگ گئی جس میں اس نے اپنی ساتھی گوگلز کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔ دونوں دیر تک اس آگ میں جلتے رہے۔۔۔ اور اسے بجھانے کے لیے ’’آتشیں ہاؤس‘‘ میں چلے گئے۔۔۔ چونکہ آبلے زیادہ پڑ گئے تھے، اس لیے وہ کئی دن ان کا علاج باہر ہی باہر کرتے رہے۔

دوسری گوگلز حیران تھی کہ یہ دونوں کہاں غائب ہوگئے ہیں۔۔۔ اس کے دونوں شیشے دھندلے ہوتے جارہے تھے کہ اچانک اس کی سہیلی کا بش شرٹ آگیا۔ اس نے اس کو نہ پہچانا اور کہا، ’’معاف کیجیے گا میرے شیشے دھندلے ہوگئے ہیں۔‘‘ اس نے فوراً اس کے شیشے نکالے، ان کو اپنی سانسوں سے پہلے گرم، پھر نم آلود کیا، اور اپنے دامن سے پونچھ کر صاف کردیا۔

وہ حیرت زدہ ہوگئی۔۔۔ اس کی زندگی میں اس کے شیشے کبھی اتنے صاف نہیں ہوئے تھے۔۔۔ دونوں ’’باردہ شمالی‘‘ میں کوہ ہمالہ کھانے کے لیے گئے۔۔۔ وہ یہ کھا ہی رہے تھے کہ پہلا بش شرٹ دوسری گوگلز کے ساتھ آگیا۔دونوں خاموش رہے۔۔۔ انہوں نے دل ہی دل میں محسوس کرلیا کہ وہ غلط چوٹیوں پرچڑھ رہے تھے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.