باغ جہاں میں سرو سا گردن کشیدہ ہوں
باغ جہاں میں سرو سا گردن کشیدہ ہوں
دامن تعلقات سے عالم کے چیدہ ہوں
اس قافلہ کو نالہ سنانے کا ذوق نیں
مثل جرس کے میں نہ دہان دریدہ ہوں
نیں بھولنے کا مثل جرس کی فغاں کے تئیں
نالاں ہوں دل اگرچہ لب آرمیدہ ہوں
بسمل ہوں دل فگار ہوں اور جاں بہ لب ہوں آہ
صورت عیاں ہے نالہ کی حلق بریدہ ہوں
رکھتا ہوں اس لیے دل سوزاں و چشم تر
جیوں شمع درد داغ سے عشق آفریدہ ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |