باغ میں آمد بہار ہے آج

باغ میں آمد بہار ہے آج
by میر مظفر حسین ضمیر

باغ میں آمد بہار ہے آج
چشم نرگس کو انتظار ہے آج

پا بہ زنجیر موج ایسے کہوں
باغ میں سرو جوۓ بار ہے آج

آئے گا کیا کوئی صنوبر قد
قمریوں کا مگر شکار ہے آج

نگہت گل ہوئی ہے مژدہ رساں
باد کے گھوڑے پر سوار ہے آج

وصف کس کا کیا تھا بلبل نے
گل جو اس کے گلے کا ہار ہے آج

سنگ برسر زناں یہ کس کے لئے
کہو گلشن میں آبشار ہے آج

خندۂ گل کو دیکھ کر بلبل
ہمہ تن نالہ ہائے زار ہے آج

کہا باد صبا نے اے ناداں
سینۂ دشمناں فگار ہے آج

شاہ دلدل سوار آتا ہے
تا فلک نور کا غبار ہے آج

کہا میں نے کہ یہ سخن تیرا
مژدۂ جان بے قرار ہے آج

حبذا مرحبا شراب طہور
ساقیا رخصت خمار ہے آج

فرط شوق جمال یار کے ہاتھ
دامن صبر تار-تار ہے آج

آئیے اے ضمیرؔ مطلب پر
یاں سے منظور اختصار ہے آج

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse