بالیں پہ ہو اے جان جو رعنائی سے گزرے
بالیں پہ ہو اے جان جُو رعنائی سے گزرے
مردہ میرا دیکھے جُو مسیحائی سے گزرے
غم مرنے کا اپنے تُو نہ تھا گور میں جاکر
اندیشہ ہزاروں تیری رعنائی سے گزرے
دیوانہ سے پرسش ہے نہ ویرانے سے حاصل
نادانی میں کیوں ہوئے تُو دانائی سے گزرے
بھریے وہیں تک جس میں نہ چھلکے میرے صاحب
اِس طرح کی ہم لاف شکیبائی سے گزرے
کہتے تھے وُہ کل سن کہ نسیمؔ آپ کا چرچا
اکثر ہیں ادھر سے بھی وُہ سودائی سے گزرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |