بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
بتاؤں کیا کسی کو میں کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
مری حسرت مرے ارمان ہو میری تمنا ہو
محبت میں قلق ہو رنج ہو صدمہ ہو ایذا ہو
یہ سب کچھ ہو کوئی پردہ نشیں لیکن نہ رسوا ہو
تم اپنے حسن کی کیا بوالہوس سے داد پاؤ گے
اسے پوچھو مرے دل سے کہ تم کیا چیز ہو کیا ہو
مرے دل کو نہ مل تلووں سے اپنے میں یہ ڈرتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو اس میں کوئی خار تمنا ہو
نہ دیکھوں کس طرح حسن خداداد ان حسینوں کا
بھلا ان زاہدوں کی طرح کون آنکھوں کا اندھا ہو
تری تصویر بھی ہے باعث دل بستگی لیکن
اسے تسکین کیا ہو جو تری باتوں پہ مرتا ہو
حفیظؔ آنا ہوا ہے پھر عظیم آباد میں اپنا
پھر اگلے ولولے پیدا ہوئے اب دیکھیے کیا ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |