بتوں سے بچ کے چلنے پر بھی آفت آ ہی جاتی ہے
بتوں سے بچ کے چلنے پر بھی آفت آ ہی جاتی ہے
یہ کافر وہ قیامت ہیں طبیعت آ ہی جاتی ہے
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھیں ہیں
جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے
وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک بعض آتے ہیں
ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے
ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ملنے کے اب ان سے
وہ جب آ کر لپٹتے ہیں محبت آ ہی جاتی ہے
کہیں آرام سے دو دن فلک رہنے نہیں دیتا
ہمیشہ اک نہ اک سر پر مصیبت آ ہی جاتی ہے
محبت دل میں دشمن کی بھی اپنا رنگ لاتی ہے
وہ کتنے بے مروت ہوں مروت آ ہی جاتی ہے
ظہیرؔ خستہ جاں شب سو رہا کچھ کھا کے سنتے ہیں
تعجب کیا ہے انساں کو حمیت آ ہی جاتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |