بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا

بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا
by نظیر اکبر آبادی

بتوں کی مجلس میں شب کو مہ رو جو اور ٹک بھی قیام کرتا
کنشت ویراں صنم کو بندہ برہمنوں کو غلام کرتا

خراب خستہ سمجھ کے تو نے پیارے مجھ کو عبث نکالا
جو رہنے دیتا تو گل رخوں میں قسم ہے میری میں نام کرتا

کروڑوں دل جو موے پڑے ہیں نکلتے خونیں کفن سے نالاں
قیامت آ جاتی جو وہ قامت گلی میں اپنی خرام کرتا

نہ اتنے قصے نہ جنگ ہوتی پیارے تیرے ملاپ اوپر
رقیب آپی سے زہر کھانے جو وصل کا تو پیام کرتا

وہ سرو قامت جو مسکرا کر چمن میں جاتا تو مسکرا کر
تڑپتی بلبل سسکتی قمری گلوں پہ ہنسنا حرام کرتا

بھلا ہوا جو نقاب تو نے اٹھایا چہرے سے ہے پری رو
وگرنہ سینے سے دل تڑپ کر نگہ میں آ کر مقام کرتا

جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا نہ شب بتاتا نہ صبح لاتا نہ شام کرتا

وہ بزم اپنی تھی مے خوری کی فرشتے ہو جاتے مست بے خود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا

نظیرؔ تیری اشارتوں سے یہ باتیں غیروں کی سن رہا ہے
وگرنہ کس میں تھی تاب و طاقت جو اس سے آ کر کلام کرتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse