بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں

بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
by ریاض خیرآبادی

بت اپنے آپ کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
مرا خدا انہیں سمجھے خدا سمجھتے ہیں

ادا شناس کی اپنے ادا سمجھتے ہیں
کہ بے کہے وہ مرا مدعا سمجھتے ہیں

سمجھنے والے تمہاری ادا سمجھتے ہیں
وہ اور کچھ ہے جسے سب قضا سمجھتے ہیں

فلک کا نام نہ لے کوئی سامنے ان کے
وہ اس کے ذکر کو اپنا گلا سمجھتے ہیں

مجھے یہ آپ کے سر کی قسم نہ تھا معلوم
کہ آپ بھی رہ و رسم وفا سمجھتے ہیں

یہ شوخیاں بھی حسینوں کی کیا قیامت ہیں
شب وصال کو روز جزا سمجھتے ہیں

یہ دن شباب کے ہیں کوئی کیا کہے ان کو
ابھی وہ کچھ نہیں اچھا برا سمجھتے ہیں

تمہارے کھوئے ہوؤں کا عجیب مسلک ہے
جو راہزن بھی ملے رہنما سمجھتے ہیں

شب وصال مرے ہم نشیں سے فرمایا
یہی تو ہیں جو ہمیں بے وفا سمجھتے ہیں

خدا کرے کہیں موقع سے مجھ کو مل جائیں
یہی حسیں جو مجھے پارسا سمجھتے ہیں

ہمیں یہ حق ہے ترا منہ بھی چومتے جائیں
کہ تیرے شکوۂ بے جا بجا سمجھتے ہیں

نہ منع کر مے و معشوق سے ہمیں واعظ
کہ ہم شباب میں سب کچھ روا سمجھتے ہیں

خدا کی شان یہ کوٹھوں کے بیٹھنے والے
ہماری آہ کو اب نارسا سمجھتے ہیں

ریاضؔ عشق میں کافر بتوں کے ہے بے خود
مزا یہ ہے وہ اسے پارسا سمجھتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse