بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ

بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
by میر انیس
294945بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔمیر انیس

بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
ایک دو لاکھ سواروں میں بہادر تھا حُرؔ
نارِ دوزخ سے ابوذرؔ کی طرح حُر تھا حُرؔ
گوہرِ تاجِ سرِ عرش ہو، وہ دُر تھا حُرؔ
ڈھونڈھ لی راہِ خدا کام بھی کیا نیک ہوا
پاک طینت تھی تو انجام بھی کیا نیک ہوا

واہ رے طالعِ بیدار، رہے عزت و جاہ
حُرؔ پہ کیا فضلِ خدا ہو گیا، اللہ اللہ
پیشوائی کو گئے آپ، شہِ عرش پناہ
خضرِ قسمت نے بتا دی اسے فردوس کی راہ
مدتوں دور رہے جو وہ قریب ایسا ہو
بخت ایسے ہوں، اگر ہو تو نصیب ایسا ہو

نار سے نور کی جانب اسے لائی تقدیر
ابھی ذرہ تھا ابھی ہو گیا خورشیدِ منیر
شافعِ حشر نے خوش ہو کے بحل کی تقصیر
تکیۂ زانوئے شبیرؔ ملا وقتِ اخیر
اوج و اقبال و حشم فوجِ خدا میں پایا
جب ہوا خاک تو گھر خاکِ شفا میں پایا

اللہ اللہ حرِؔ صفدر و غازی کا نصیب
جانِ محبوبِ الٰہی جسے فرمائے حبیب
ہجر میں لطف ملاقات کا دوری میں قریب
وہی کام آتے ہیں محسن کے، جو ہوتے ہیں نجیب
صدقے ہو جائے اسے عشقِ ولی کہتے ہیں
اس کو دنیا میں سعیدِ ازلی کہتے ہیں

آیا کس شوق سے کعبے کی طرف چھوڑ کے دَیر
کوئی حضرت کا یگانہ بھی نہ سمجھا اسے غیر
حق نے لکھ دی تھی جو تقدیر میں فردوس کی سیر
فتنہ و شر سے بچا، ہو گیا انجام بخیر
ذکرِ خیر اس کے موے پر بھی ہوئے جاتے ہیں
عملِ نیک ہر اک وقت میں کام آتے ہیں

کفر کی راہ سے کارہ تھا، جو وہ نیک طریق
کس بشاشت سے ہوا، رہبرِ ایماں کا رفیق
تھے تو لاکھوں، پہ کسی کو بھی ہوئی یہ توفیق
خُلق طینت میں ہے جس کے وہی ہوتے ہیں خلیق
اوج دیندار کو، بے دیں کو سدا پستی ہے
اصل جس تیغ کی اچھی وہی کستی ہے

کیوں نہ بالیدہ ہو اس کا چمنِ جاہ و جلال
جس کو سر سبز کرے خود اسد اللہ کا لال
ہو گیا فاطمہؔ کے باغ میں آتے ہی نہال
وہ ثمر پائے کہ پہونچے نہ جہاں دستِ خیال
کِھِل گیا غنچۂ دل عذر جو منظور ہوئے
صورتِ برگِ خزاں دیدہ، گنہ دور ہوئے

حُرؔ کہاں، اور کہاں احمدِؔ مرسل کا خلف
بخت نے دَیر سے پہونچا دیا کعبے کی طرف
دل صفا ہو گیا سینے میں تو پائے یہ شرف
جب کہ آنکھیں ہوئی حق بیں، تو ملا درِّ نجف
نیک جو امر ہیں، دل پر وہی ٹھن جاتے ہیں
جب خدا چاہے تو بگڑے ہوئے بن جاتے ہیں

وصفِ حُر میں ہے زباں معترفِ عجز و قصور
آمد آمد کی بہادر کا، سنو اب مذکور
جب ہوئی مستعدِ جنگ، سپاہِ مقہور
مہر افلاک امامت نے کیا رن میں ظہور
غل ہوا جنگ کو، اللہ کے پیارے نکلے
اے فلک دیکھ، زمیں پر بھی ستارے نکلے

کیا کہوں شانِ جوانانِ جنودِ اللہ
کوئی ہم طلعتِ خورشید، کوئی غیرتِ ماہ
باندھی شیروں نے صفِ جنگ میانِ جنگاہ
چمنِ خُلد سے کرنے لگیں حوریں بھی نگاہ
واں لعینوں نے درِ ظلم و ستم کھول دیا
بڑھ کے عباسؔ نے یاں سبز علم کھول دیا

ہو گئے سرخ شجاعت سے رخِ آلِ نبیؐ
آئی ٹھنڈی جو ہوا بھول گئے تشنہ لبی
رن میں کڑکا ہوا، بجنے لگے باجے عربی
یکہ تازوں نے کیا شورِ مبارز طلبی
اک گھٹا چھا گئی ڈھالوں سے سیہ کاروں کی
برق ہر صف میں چمکنے لگی تلواروں کی

برچھیاں تول کے ہر غول سے خوں خوار بڑھے
نیزے ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے اسوار بڑھے
تیر جوڑے ہوئے چلوں میں، کماں دار بڑھے
بولے شہ یاں سے ابھی کوئی نہ زنہار بڑھے
اسدِ حق کے گھرانے کا یہ دستور نہیں
میں نبی زادہ ہوں سبقت مجھے منظور نہیں

یہ سخن سن کے مخاطب ہوئے اعدا سے امام
اے سپاہِ عرب و روم و رے و کوفہ و شام
تم پہ کرتا ہے حسینؔ آخری حجت کو تمام
پسرِ مصحفِ ناطق ہوں سنو میرا کلام
سخنِ حق کی طرف کانوں کو مصروف کرو
شو باجوں کا مناسب ہو تو موقوف کرو

یہ صدا سنتے ہی خود رک گیا، قرنا کا خروش
تھم گیا، طبلِ وغا کی بھی وہ آواز کا جوش
ہو گیا جوڑ کے ہاتھوں کو، جلاجل خاموش
کیا بجاتے کہ بجا تھے نہ کسی شخص کے ہوش
چھیڑنا ان کو سرودوں کا بھی ناساز ہوا
رعب فرزند نبیؐ سرمۂ آواز ہوا

کم ہوا غلغلۂ فوج ستم جب اک بار
یوں گہر بار ہوئے شہ کے لبِ گوہر بار
صف کشی کس پہ ہے، یہ اے سپہِ ناہنجار
قتل سادات کی، لشکر میں یہ کیسی ہے پکار
وطن آواروں پہ، یہ قرق ہے کیوں پانی کا
کیا زمانے میں یہی طور ہے مہمانی کا

مجھ کو لڑنا نہیں منظور، یہ کیا کرتے ہو
تیر جوڑے ہیں جو مجھ پر تو خطا کرتے ہو
کیوں نبی زادے پہ غربت میں جفا کرتے ہو
دیکھو اچھا نہیں یہ ظلم، برا کرتے ہو
شمع ایماں ہوں، اگر سر مرا کٹ جائے گا
یہ مرقعِ ابھی اک دم میں الٹ جائے گا

میں ہوں سردارِ شبابِ چمنِ خلد بریں
میں ہوں خالق کی قسم دوشِ محمد کا مکیں
میں ہوں انگشتر پیغمبر خاتم کا نگیں
مجھ سے روشن ہے فلک مجھے سے منور ہے زمیں
ابھی نظروں سے نہاں نور جو میرا ہو جائے
محفلِ عالمِ امکاں میں اندھیرا ہو جائے

قلزم عز و شرف کا درِ شہوار ہوں میں
سب جہاں زیرِ نگیں ہے وہ جہاندار ہوں میں
آج گو مصلحتاً، بیکس و ناچار ہوں
ورثۂِ احمدِ مختار کا، مختار ہوں میں
بخدا دولتِ ایماں اسی دربار میں ہے
سب بزرگوں کا تبرک مری سرکار میں ہے

یہ قبا کس کی ہے بتلاؤ یہ کس کی دستار
یہ زرہ کس کی ہے، پہنے ہوں جو میں سینہ فگار
بر میں کس کا ہے یہ چار آئینۂ جوہر دار
کس کا رہوار ہے یہ آج میں جس پر ہوں سوار
کس کا یہ خود ہے، یہ تیغِ دوسر کس کی ہے
کس جری کی یہ کماں ہے، یہ سپر کی کی ہے

تنگ آئے گا تو رکنے کا نہیں پھر شبیرؔ
ایک حملے میں فنا ہوں گے یہ دو لاکھ شریر
چل سکیں گے نہ تبر مجھ پہ، نہ تلوار نہ تیر
کاٹ جائے گی گلے سب کے یہ برّاں شمشیر
شیر ہوں لختِ دل غالبِ ہر غالب ہوں
میں جگر بند علیؔ ابنِ ابی طالبؔ ہوں

مجھ کو ہوتا نہ اگر بخششِ امت کا خیال
روک لیتا مجھے رستہ میں، یہ حر کی تھی مجال
تھام سکتا تھا، لجامِ فرسِ برق مثال
پوچھ لو دیکھا ہے اس نے، مرے شیروں کا جلال
گفتگو میں سپر اس کی جو نہ ہم، ہو جاتے
ہاتھ اِک وار میں، پہونچوں سے قلم ہو جاتے

غیظ سے ہاتھ چباتے تھے علیؔ کے دلدار
نیمچے تولتے تھے عون و محمد ہر بار
اگلی پڑتی تھی جگر بند حسنؔ کی تلوار
میں نے جب سر کی قسم دی تو رکے وہ جرار
چلتی تلوار تو جنگل تہ و بالا ہوتا
پھر نہ حُرؔ خلق میں ہوتا نہ رسالہ ہوتا

تھا یہ بپھرا ہوا عباسؔ مرا شیر جواں
سینۂ حُرؔ پہ رکھے دیتا تھا، نیزے کی سناں
میں یہ کرتا تھا اشارہ کہ، نہ اے بھائی جاں
رحم لازم ہے ہمیں، ہم ہیں امامِ دو جہاں
کچھ تردد نہیں، سر تن سے اتارا جائے
کوئی بندہ نہ مرے ہاتھ سے مارا جائے

گرچہ یہ امر نہیں، اہل سخا کے شایاں
کہ کسی شخص کو کچھ دے کے کرے سب پہ عیاں
پوچھ لو حرؔ تو ہے موجود، عیاں راچہ بیاں
اسی جنگل میں، مع فوج تھا، یہ تشنہ دہاں
شور تھا آج، چلیں جسم سے جانیں سب کی
منہ کے باہر نکل آئی تھیں زبانیں سب کی

زیست ہر شے کی ہے، پانی سے، شجر ہو کہ بشر
مجھ سے دیکھا نہ گیا، میں تو سخی کا ہوں پسر
میں نے عباسؔ دلاور سے کہا، گھبرا کر
مشکوں والے ہیں کہاں، اونٹ ہیں پانی کے کدھر
کرم ساقیٔ کوثر کو دکھا دو بھائی
جتنا پانی ہے وہ پیاسوں کو پلا دو بھائی

رہ نہ جائے کوئی گھوڑا کوئی ناقہ بے آب
چھاگلیں جلد منگاؤ، مرا دل ہے بے تاب
سقے مشکیزوں کا منہ کھول کے آ پہونچے شتاب
متوجہ ہوا میں خود کہ، وہ تھا، کارِ ثواب
چین آیا نہ مجھے، بے انہیں آرام دیئے
تھا جو اک جام کا پیاسا، اسے دو جام دیئے

تھی یہی فصل یہی دھوپ یہی گرم ہوا
ٹھنڈے پانی پہ گرے پڑتے تھے، حُرؔ کے رفقا
تشنہ کاموں کا یہ مجمع تھا کہ ملتی نہ تھی جا
سقے بھر بھر کے کٹوروں کو یہ دیتے تھے صدا
بھائیو آؤ، جو پانی کی طلب گاری ہے
چشمۂ فیضِ حسینؔ ابنِ علیؔ جاری ہے

آبِ شیریں کا جو دریا ہوا جنگل میں رواں
فرس و اشتر، و قاطر نہ رہے تشنہ دہاں
شکر کرنے لگے تر ہو گئی، ہر خشک زباں
پانی پی پی کے دعائیں مجھے دیتے تھے جواں
شور تھا ابنِ یداللہ نے جاں بخشی کی
دین و دنیا کے شہنشاہ نے جاں بخشی کی

ایک دن وہ تھا اور اک دن یہ ہے، اللہ اللہ
کہ اسی طرح، ہمیں پیاس میں، پانی کی ہے چاہ
چشم امید ہو کیا، سب نے پھرالی ہے نگاہ
کوئی اک جام بھی بھر کر ہمیں دیتا نہیں آہ
ہر مسلماں پہ نبیؐ زادے کا حق ہوتا ہے
بچے روتے ہیں تو سینہ مرا شق ہوتا ہے

کئی معصوم ہیں کمسن جو موئے جاتے ہیں
دم اکھڑتا ہے مرا جب انہیں غش آتے ہیں
پانی پانی جو وہ کہتے ہیں تو شرماتے ہیں
پاس دریا ہے پہ اک بوند نہیں پاتے ہیں
سچ ہے غربت کی عجب شام و سحر ہوتی ہے
تیسرا دن ہے، کہ فاقوں میں بسر ہوتی ہے

شہ کہ مظلومی پہ گریاں ہوئی ظالم کی سپاہ
عمرِ سعدؔ نے کی، مڑ کے رخِ حُرؔ پہ نگاہ
بولا وہ اشہد باللہ، بجا کہتے ہیں شاہ
محسن و منعم و آقا ہے مرا یہ ذی جاہ
اِن کے احسان کا کیوں کر کوئی منکر ہو جائے
سخن حق میں جو شک لائے وہ کافر ہو جائے

ایک میں کیا ہوں، زمانے پہ ہے احساں اِن کا
ابرِ رحمت ہیں خطا پوش ہے داماں، اِن کا
خشک و تر پر ہے کرم، خلق میں، یکساں ان کا
ہے خوشا حال جو غربت میں ہو مہماں ان کا
جنّتی ہے جسے حاصل یہ شرف ہوجائے
جو ادھر ہو گا خدا اس کی طرف ہو جائے

یہ ابھی ہاتھ اٹھا کر جو دعا فرمائیں
جتنے عالم کے گنہگار ہیں بخشے جائیں
حق سے جس شے کے طلب گار ہوں، فوراً پائیں
جامِ کوثر یہیں فردوس سے حوریں لائیں
مثلِ خورشید ہے روشن وہ شرف ان کا ہے
یہ وہ بندے ہیں، کہ اللہ پہ حق جن کا ہے

ان سے قطرہ کوئی مانگے تو گہر دیتے ہیں
ہیں سخی ابنِ سخی بات پہ سر دیتے ہیں
پیٹ سائل کا یہ فاقوں میں بھی بھر دیتے ہیں
یاں تور زر دیتے ہیں، فردوس میں گھر دیتے ہیں
آس مجرم کی، گنہ گار کی امید ہیں یہ
ذرہ پرور جنہیں کہتے ہیں، وہ خورشید ہیں یہ

حُرؔ سے گھبرا کے یہ بولا عمرِؔ سعدِ شریر
یہ تو ہے صاف طرفداریِٔ شہ کی تقریر
اپنے حاکم کا نہ کچھ ذکر نہ تعریفِ امیر
اللہ اللہ یہ اوصاف، یہ مدحِ شبیر
سن چکا ہوں میں، کہ مضطر ہے کئی راتوں سے
الفتِ شاہ ٹپکتی ہے تری باتوں سے

نہ وہ آنکھیں، نہ وہ چتون، نہ وہ تیور، نہ مزاج
سیدھی باتوں میں بگڑنا یہ نیا طور ہے آج
تخت بخشا ہے محمدؐ کے نواسے نے کہ تاج
جن کو سمجھا ہے غنی دل میں، وہ خود ہیں محتاج
کون سا باغ تجھے شاہ نے دکھلایا ہے
کہیں کوثر کے تو چھینٹوں میں نہیں آیا ہے

کیا کسی حور کا، دکھلا دیا، حضرت نے جمال
ملک گیا سایۂ طوبیٰ کہ جو ایسا ہے نہال
قصرِ یاقوت میں پہونچا، جو ترا رنگ ہے لال
کون سے میوۂ شیریں پہ ٹپکتی ہے رال
دفعتہً حقِّ نمک کو بھی فراموش کیا
کیا تجھے بادۂ تسنیم نے بے ہوش کیا

میں جہاں دیدہ ہوں، سب مجھکو خبر ہے تیری
قرّۃالعین محمدؐ پہ نظر ہے تیری
ہونٹ بھی خشک ہیں اور چشم بھی تر ہے تیری
جسم خاکی ہے اِدھر، جان اُدھر ہے تیری
راہ میں کچھ جو سلوک اور نوازش کی ہے
تو نے فرزندِ ید اللہ سے سازش کی ہے

خیر مخفی نہ رہے گا یہ قصور اور فتور
لکھیں گے عہدۂ اخبار پہ جو ہیں مامور
حاکمِ شام ہے جابر، وہ سزا دے گا ضرور
گر تجھے دار پہ کھینچے، تو کچھ اس سے نہیں دور
سب تری قوم کے سر تن سے جدا ہوئیں گے
زن و فرزند، گرفتارِ بلا ہوئیں گے

نفع اس امر میں جس میں میں ہو مردم کا ضرر
آنکھیں نکلیں گی، محبت سے جو دیکھے گا اُدھر
شجرِ قامتِ سرور پہ، جو ڈالے گا نظر
سر چڑھے گا ترا برچھی پہ، یہ ہے اس کا ثمر
الفتِ زلف سے بھی پیچ میں تو آئے گا
خال رخ دیکھا، تو گھر خانصے لگ جائے گا

بدرِ پیشانیٔ سرور کا ہے جو سر میں خیال
تو اسی ماہ میں نقصاں ترا ہوئے گا کمال
سب میں ہو جائے گا انگشت نما شکل ہلال
تیر و شمشیر ہے، ابرو کی محبت کا مآل
عشق رخسار میں، رتبہ ترا گھٹ جائے گا
منہ پہ کہتا ہوں کہ چہرہ ابھی کٹ جائے گا

خوف کس بات کا پیاسوں سے یہ تھرّانا کیا
لب پہ ہر مرتبہ، بیکس کی ثنا لانا کیا
ننگ کی بات ہے دشمن کی طرف جانا کیا
ہو نبی یا کہ وصی جنگ میں شرمانا کیا
ابھی لے جائیں جو شبیر کا سر ہاتھ لگے
خلد ہم اس کو سمجھتے ہیں کہ زر ہاتھ لگے

حرؔ پکارا کہ زباں بند کراو نا ہموار
قابلِ لعن ہے تو اور وہ تیرا سردار
ابن زہراؔ ہے جگر بند رسولِ مختار
میرا کیا منہ جو کروں مدحِ امامِ ابرار
اک زمانہ صفِت آلِ عبا کرتا ہے
آپ قرآں میں خدا ان کی ثنا کرتا ہے

وصف ایسوں کا زباں پر کوئی کیونکر لائے
تین سو آئے ہوں، تعریف میں جن کی، آئے
کسی انساں نے یہ دنیا میں ہیں رتبے پائے
اپنا محبوب و ولی جس کو خدا فرمائے
الفتِ آل میں مریئے تو خوش اقبالی ہے
سنگ ہے ان کی محبت سے جو دل خالی ہے

اسفلوں سے ہے محبت تجھے اور سفلہ مزاج
خاک پا اس کی ہوں میں ہے جو سرِ عرش کا تاج
جس کو کاندھے پہ محمدؔ کے ملی ہے معراج
میرے آقا سا سخی کون ہے کونین میں آج
کیوں ترے سامنے مکروں کو نہیں بخشا ہے
ہاں، مجھے شاہ نے، فردوس بریں بخشا ہے

باغ جو مجھ کو دکھایا اسے کیا جانے تو
راحتِ روح ہے، جس باغ کے ہر پھول کو بو
مجھ کو اللہ نے بخشیں ہیں وہ حوریں خوش رو
کہ جنہیں تیرے فرشتوں نے نہ دیکھا ہو کبھو
نام کوثر کا نہ لے تو مجھے جوش آتا ہے
انہیں چھینٹوں سے تو بیہوش کو ہوش آتا ہے

عزتِ دیں شرفِ کون و مکاں ہیں شبیرؔ
جانِ زہراؔ ہیں محمدؐ کی زباں ہیں شبیرؔ
سنگ پانی ہو، وہ اعجاز بیاں ہیں شبیرؔ
جان کیوں ہو نہ ادھر، جانِ جہاں ہیں شبیرؔ
مہرباں ہوں تو ابھی عقدہ کشائی ہووے
وہ نہ بخشیں تو خدا تک نہ رسائی ہووے

کیا میں اور کیا وہ ریاست مری، کیا میرے عیال
جبکہ آفت میں پھنسے احمدِ مختار کی آل
داں کی املاک و زراعت کا ہو کیا مجھ کو خیال
یاں ہوئی جاتی ہے سادات کی کھیتی پامال
گھر کا اب دھیان نہ بچوں کا الم ہے مجھ کو
خانہ بربادیِٔ شبیرؔ کا غم ہے مجھ کو

دولتِ حاکم دوں پر ہے ترا دار و مدار
دارِ دنیا سے تعلق نہیں رکھتے، دیں دار
کیا مجھے دار پہ کھنیچے گا، وہ ظالم غدار
خوابِ غفلت ہے اسے او مرے طالع بے دار
کسی سردار نے یہ اوج نہ پایا ہوگا
دارِ طوبیٰ کا مرے فرق پہ سایہ ہوگا

ہے سر افراز سدا عاشق پیشانیِٔ شاہ
سجدے کیجے کہ ہے بیت ابروؤں کی بیت اللہ
عشق آنکھوں کا ہے مردم کے لئے نورِ نگاہ
ہے وہ یوسف جسے ہو مصحفِ رخسار کی چاہ
عاشق لب کو خدا لعل و گہر دیتا ہے
وہ دہن، چشمۂ کوثر کی خبر دیتا ہے

خالِ رخسار نہیںِ گوئے سعادت ہے یہ
مجھ سے مجرم کے لئے مہر شفاعت ہے یہ
ہوں جو آشفتۂ گیسو تو عبارت ہے یہ
بخدا سلسلۂ بخششِ امت ہے یہ
شب معراجِ رسولِ دو جہاں سمجھا ہوں
اس کے ہر تار کو میں رشتۂ جاں سمجھا ہوں

وصفِ دنداں میں زبان جس کی رہے گوہر بار
موتیوں سے دہن اس شخص کا بھر دے غفار
شوق میں سیب ذقن کے جسے آئے نہ قرار
حوریں غرفے سے دکھائیں اسے رنگِ رخسار
دم بہ دم چاہنے والوں کے لہو گھٹتے ہیں
یہ گلا وہ ہے گلے، جس کے لئے کٹتے ہیں

صدقے اُس سینے پہ ہیں، عاشقِ صافی سینا
خاک اس دل پہ جو اس سینے سے رکھے کینا
حق نما ہے تو جہاں میں ہے یہی آئینا
اس کا عاشق ہو تو، ہوں کور کی آنکھیں بینا
فیض پاتا ہے وہ دل جس میں ولا ہوتی ہے
چشم کو اس کی زیارت سے جلا ہوتی ہے

پاؤں یہ وہ ہیں کہ ان پاؤں کو جو ہاتھ لگائے
تو سر دست سر افرازیِٔ کونین وہ پائے
گردِ نعلین مبارک، جو اثر اپنا دکھائے
توتیا ہوئے خجل، کحلِ جواہر شرمائے
صدقے کر دیں گے سر ان پاؤں پہ ہم ایسے ہیں
دوشِ احمدؔ پہ رہے جو، یہ قدم ایسے ہیں

عملِ خیر سے بہکا نہ مجھے او ابلیس
یہی کونین کا مالک ہے یہی راس و رئیس
کیا مجھے دے گا ترا حاکم ملعون و خسیس
کچھ تردد نہیں کہہ دے کہ لکھے پرچہ نویس
ہاں سوئے ابنِ شہنشاہ عرب جاتا ہوں
لے ستمگر، جو نہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں

کہہ کے ڈاب سے غازی نے نکالی تلوار
سرخ آنکھیں ہوئی ابرو پہ بل آئے اک بار
تن کے دیکھا طرفِ فوجِ امامِ ابرار
پاؤں رکھنے لگا بن بن کے زمیں پر رہوار
غل ہوا سیدِ والا کا ولی جاتا ہے
لو طرف دار حسینؔ ابنِ علیؔ جاتا ہے

حرؔ نے نعرہ کیا، یا حیدرؔ صفدر مددے
وقتِ امداد ہے، یا فاتحِ خیبر مددے
زوجِ زہراؔ مددے، نفس پیمبر مددے
بندۂ آل ہوں، یا خواجۂ قنبر مددے
تنِ تنہا ہے غلام، اور بہت اظلم ہیں
آئی آواز کہ اے حرؔ ترے حامی ہم ہیں

مل گئی راہِ خدا واہ رے اقبال ترا
پاک عصیاں سے ہوا نامۂ اعمال ترا
جرمِ ماضی ہوئے سب عفو خوشا حال ترا
جلد جا جلد کہ شائق ہے مرا لال ترا
مرد ہے جس کی یہ ہمت یہ ارادہ ہووے
ہاں بہادر تری توفیق زیادہ ہووے

منتظر ہیں ترے سب فوجِ حسینی کے جواں
درِ فردوس پہ مشتاق کھڑا ہے رضواں
راہ تکتی ہیں تری دیر سے حورانِ جناں
شور کوثر پہ ہے شبیرؔ کا مہماں ہے کہاں
فوجِ قدسی تری ہمت کی ثنا کرتی ہے
فاطمہؔ آج ترے حق میں دعا کرتی ہے

تو بہشتی ہے، یہ کافر ہیں کنشتی اے حرؔ
مٹ گئی سب ترے اعمال کی زشتی اے حرؔ
دیکھ اب صورتِ حورانِ بہشتی اے حرؔ
کس تلاطم میں بچی ہے تری کشتی اے حرؔ
غضب اللہ کا شبیرؔ کی ناراضی ہے
پنجتن تجھ سے ہیں راضی تو خدا راضی ہے

اور بالیدہ ہوا سن کے یہ مژدہ وہ حزبر
دل بیتاب پکارا کہ نہیں طاقتِ صبر
اب تو اس فوج میں اک دم کی بھی تعویق ہے جبر
قعرِ دوزخ ہے، مسلماں کے لئے صحبت گبر
ہاں اٹھا باگ، جو شیدائے شہِ عالی ہے
فوج اللہ و نبی میں تری جا خالی ہے

سن کے یہ باگ جو لی، اسپ سبک تاز اڑا
ڈر سے رنگِ عمرِ شعبدہ پرواز اڑا
کیا اڑا رخش، کہ طاؤس بصد ناز اڑا
دی پرندوں نے یہ آواز کہ شہباز اڑا
باغِ زہراؔ میں، نسیم سحری جاتی ہے
غل تھا دربار سلیماں میں پری جاتی ہے

کیا دو تین رسالوں نے تعاقب ہر چند
حرؔ کا ہاتھ آنا تو کیسا نہ ملی گردِ سمند
کہتے تھے شرم سے وہ لے کے جو دوڑے تھے کمند
یہ چھلاوا تھا کہ آندھی، یہ فرس تھا کہ پرند
کیا سبک سوئے چمن بادِ بہاری پہونچی
ہم یہیں رہ گئے واں حرؔ کی سواری پہونچی

یاں ہوئے علمِ امامت سے شہِ دیں آگاہ
ہنس کے عباسؔ سے فرمایا کہ اے غیرتِ ماہ
میرے لشکر کی طرف ہے رخِ حرّ ذی جاہ
سب سے کہہ دو کہ نہ روکے کوئی اس شخص کی راہ
جاؤ لینے کو عجب رتبہ شناس آتا ہے
میرا مہماں، مرا عاشق، مرے پاس آتا ہے

ذکر یہ تھا کہ صدا دور سے آئی اِک بار
الغیاث اے جگر و جانِ رسولِ مختار
مجرم ایسا ہوں، کہ عصیاں کا نہیں جس کے شمار
عفو کر عفو کر، اے چشمۂ فیضِ غفار
پار دریائے خطا سے مری کشتی ہو جائے
دوزخی بھی ترے صدقے سے بہشتی ہو جائے

کئی روزوں سے تلاطم میں ہوں، اے شاہنشاہ
مدد اے نوحِ غریباں، مرا بیڑا ہے تباہ
دست و پا گم ہیں کچھ ایسے کہ نہیں سوجھتی راہ
شور کرتا ہوں کہ بتلائے کوئی جائے پناہ
ابرِ رحمت کی طرف جا یہ صدا دیتے ہیں
سب ترے دامنِ دولت کا پتا دیتے ہیں

ترے دامن کے نثار اے مرے آقائے جلیل
رحم کر رحم کہ شرمندہ ہے یہ عبد ذلیل
دل خنک ہوئے جو نکلے کوئی کوثر کی سبیل
جان آ جائے جو مولائے دو عالم ہوں کفیل
نہ وزیروں میں یہ ہمت نہ شہنشاہ میں ہے
سب مرے درد کا درماں، تری درگاہ میں ہے

خلق میں آپ کے والد کا کرم ہے مشہور
بات میں بخش دیئے سینکڑوں بندوں کے قصور
مجھ سے ہیں باگ پکڑ لینے پہ آزردہ حضور
بخش دیجے تو کرم سے نہیں کچھ آپ کے دور
یہ تو کیونکر کہوں، میں لائقِ تعزیر نہیں
مگر اسود سے زیادہ مری تقصیر نہیں

اے مددگار و معین الضعفا، ادرکنی
اے خبر گیر گروہ غربا، ادرکنی
پاؤں لغزش میں ہیں اے دست خدا ادرکنی
ہاتھ باندھے ہوں میں اے عقدہ کشا، ادرکنی
دیجئے حر کو سند نار سے آزادی کی
آیئے جلد خبر لیجئے فریادی کی

مرے اعمال میں ہر چند سراسر ہے بدی
ہوں گہنگارِ خدائے ازلی و ابدی
آپ ہیں مالکِ سرکارِ جنابِ احدی
اے خداوندِ جہاں خُذ بیدی خُذ بیدی
جو تہی دست ہیں تکتے ہیں شہنشاہ کا ہاتھ
آپ کا ہاتھ زمانے میں ہے اللہ کا ہاتھ

ایک یہ خستہ تن اور درپئے جاں لاکھ حریف
اے سلیماں کہیں پامال نہ ہو مورِ ضعیف
چھوڑ کر آپ کی سرکار، کہاں جائے نحیف
کیجئے اب نظر لطف، کہ ہوتا ہے خفیف
ہوں سرافراز جو اتنا ہی کرم ہو جائے
نام قنبرؔ کے غلاموں میں رقم ہو جائے

استغاثہ یہ کیا حُرؔ نے جو بادیدۂ نم
آ گیا جوش میں اللہ کا دریائے کرم
خود بڑھا ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے شہنشاہِ امم
حرُ کو یہ ہاتفِ غیبی نے صدا دی اس دم
شکر کر سبط رسول الثقلین آتے ہیں
لے بہادر ترے لینے کو حسین آتے ہیں

حرُ نے دیکھا کہ چلے آتے ہیں پیدل شبیرؔ
دوڑ کر چوم لئے پائے شہ عرشِ سریر
شہ نے چھاتی سے لگا کر کہا اے با توقیر
میں نے بخشی، مرے اللہ نے بخشی تقصیر
میں رضا مند ہوں کس واسطے مضطر ہے تو
مجھ کو عباسؔ دلاور کے برابر ہے تو

کس کے کیوں باندھا ہے ہاتھوں کو میں ہوتا ہوں خجل
سہل کر دیں اسے گر اور کوئی ہو مشکل
بھائی آ، مجھ سے بغل گیر تو ہو، کھول کے دل
غافر و راحم و تواب ہے ربِ عادل
جرم سب محو کئے حق نے ترے دفتر سے
آج پیدا ہوا گویا شکمِ مادر سے

حرؔ پکارا بابیِ انت و امی یا شاہ
قابل عفو نہ تھے بندۂ آثم کے گناہ
مجھ سے گمراہ کو اک آن میں مل جائے یہ راہ
سب ہے صدقہ انہیں قدموں کا خدا ہے آگاہ
مہر ذرے پہ جو ہو نیرِ تاباں ہو جائے
آپ جس مور کو چاہیں وہ سلیماں ہو جائے

کون مقدادؔ تھے سلمانؔ و آباذرؔ تھے کون
آپ فرمائیں کہ عمارِؔ دلاور تھے کون
شور عالم میں جو ہے، مالکِؔ اشتر تھے کون
اے خداوندِ جہاں حضرتِ قنبرؔ تھے کون
انہیں قدموں کا تصدق تھا کہ ممتاز ہوئے
اسی سرکار کے خلعت سے سر افراز ہوئے

شہ نے فرمایا کہ خالق کی عنایت ہے یہ سب
دے کسی شخص کو بندے میں یہ مقدور ہے کب
اس مسبب کی عنایت کے یہ سارے ہیں سبب
وہی منعم، وہی محسن، وہی رازق، وہی رب
اپنے کیسے سے نہ دام اور درم دیتے ہیں
جب وہ خالق ہمیں دیتا ہے تو ہم دیتے ہیں

لاکھ ہاتھ اس کے ہیں دینے کے وہ ایسا ہے جواد
ہم اسے بھولیں تو بھولیں، وہ ہمیں رکھتا ہے یاد
رزق وہ حوصلۂ حرص سے دیتا ہے زیاد
شکر کرتے نہیں معبود کا اس پر بھی عباد
وہ غنی ہے کہ ہے محتاج زمانہ اس کا
کبھی خالی نہیں ہوتا ہے خزانہ اس کا

جس قدر اس سے طلب کیجئے خوشنود ہے وہ
صاحبِ جود ہے وہاب ہے، محمود ہے وہ
ہاتھ پھیلائے جو سو بار تو، موجود ہے وہ
بخش دیتا ہے کہ ہم عبد ہیں، معبود ہے وہ
پرورش جرم پہ بھی، صبح و مسا ہوتی ہے
یاں سے ہوتی ہے خطا واں سے عطا ہوتی ہے

کہہ کے یہ ساتھ لئے حُرؔ کو چلے شاہِ امم
ہاتھ میں ہاتھ تھا مہمان کا، اللہ رے کرم
راس و چپ قاسمؔ و اکبرؔ تھے، زہے شان و حشم
سر پہ کھولے ہوئے تھے حضرتِ عباس علم
دورسے اہلِ خطا، تیر جو برساتے تھے
رفقا سائے میں ڈھالوں کے لئے آتے تھے

لائے اس عزت و حرمت سے جو مہماں کو امام
بولے عباس کمر کھول، اب اے نیک انجام
شہ نے فرمایا مناسب ہے کوئی دم آرام
عرض کی حُرؔ نے کمر خلد میں کھولے گا غلام
فاتحہ پڑھ کے، یہ شمشیر و سپر باندھی ہے
آج اس عزم پہ خادم نے کمر باندھی ہے

ہے بہت شمر و عمر سے مجھے لڑنے کی امنگ
ایک ہی وار میں دونوں کا کروں گا چورنگ
لشکرِ شام سے پہیم چلے آتے ہیں، خدنگ
شاہزادوں کے سپر ہوں، کہ عبادت ہے جنگ
لیکن ایسا نہ ہو بچہ کوئی بے جاں ہو جائے
پہلے یہ تازہ غلام آپ پہ قرباں ہو جائے

شہ نے فرمایا کہ دشوار ہے فرقت تیری
مجھکو مر کر بھی نہ بھولے گی محبت تیری
وا دریغا، ہوئی کچھ ہم سے نہ خدمت تیری
خیر فردوس میں ہو جائے گی دعوت تیری
آج رتبہ ترا خیلِ شہدا میں ہوگا
شب کو تو صحبتِ محبوب خدا میں ہوگا

تجھ پہ مخفی نہیں ہفتم سے جو کچھ ہے مرا حال
راہیں ہر سمت کی روکے ہوئے ہیں اہلِ ضلال
قحط پانی کا ہے اس دشت میں گندم کا ہے کال
نانِ جو کا بھی ہے ملنا کسی قریے میں محال
سب کو ایذا عوضِ آب و غدا ملتی ہے
دودھ اصغرؔ کو نہ عابدؔ کو دوا ملتی ہے

حُرؔ نے رو کر سرِ تسلم جھکایا بہ ادب
شہ نے رومال رکھا آنکھوں پہ رونے لگے سب
جب چڑھا گھوڑے پہ وہ عاشقِ سلطانِ عرب
شاہ بولے کہ عجب دوست چھٹا ہائے غضب
دم بہ دم یاں سے جو آوازِ بکا جاتی تھی
گریۂ آلِ محمد کی صدا آتی تھی

حُرؔ چلا فوج مخالف پہ اڑا کے توسن
چوکڑی بھول گئے جس کی تگاپو سے ہرن
وہ جلال اور وہ شوکت، وہ غضب کی چتون
ہاتھ میں تیغ، کماں دوش پہ بر میں جوشن
دوسرے دوش پہ شملے کے جو بل کھاتے تھے
کاکلِ حور کے سب پیچ کھلے جاتے تھے

زور بازو کا نمایاں تھا بھرے شانوں سے
دستِ فولاد دبا جاتا تھا دستانوں سے
برچھیوں اڑتا تھا دب دب کے فرس رانوں سے
آنکھ لڑ جاتی تھی، دریا کے نگہبانوں سے
خودِ رومی کی، جو ضو، تابہ فلک کھاتے تھے
چشمِ خورشید میں بجلی سی چمک جاتی تھی

نیزۂ حُرؔ کی سناں پر نہ ٹھہرتی تھی نگاہ
تھا یہ ظاہر کہ نکالے ہے زباں مارِ سیاہ
قبضۂ تیغ پہ رکھے تھی سر عجز پناہ
آفتابی وہ سپر، جس سے خجل گردۂ ماہ
قدر اندازوں کو جانوں کے ادھر لالے تھے
تیر ترکش میں نہ تھے آگ کے پرکالے تھے

رن میں جب شہ کی طرف سے حُرِؔ دیں دار آیا
کس بشاشت سے اڑاتا ہوا رہوار آیا
غل ہوا سید مظلوم کا، غم خوار آیا
جاں نثارِ خلفِ حیدرِ کرّار آیا
تتّق نور سرِ راہ نظر آتا ہے
جلوۂ قدرتِ اللہ نظر آتا ہے

آنے جانے کا بہادر کے کروں کیا مذکور
پہلے کچھ اور ہی جلوہ تھا، پر اب اور ظہور
اے خوشا رتبہ فیضِ قدمِ پاک حضور
غل تھا آتا ہے ملک پہنے ہوئے خلعتِ نور
صحبت اہلِ ولا، دل کو جلا کرتی ہے
مس کو اک آن مین اِکسیر طلا کرتی ہے

واہ کیا فیض ہے، سرکارِ شہِ عالم میں
ذرۂِ خاک کو خورشید کیا، اک دم میں
نور یہ حور میں دیکھا، نہ بنی آدم میں
یہ وہی حُرِؔ جری ہے جو ابھی تھا ہم میں
تن ہے خوش بو، رخِ گل رنگ تر و تازہ ہے
خاک نعلینِ مبارک کی عجب غازہ ہے

مہر ذرہ ہے جہاں، چہرۂ روشن ایسا
چاند بھی جس سے کرے کسبِ ضیا، تن ایسا
حرز ہو، بازوئے داؤد کا، جوشن ایسا
ہوش پریوں کے اڑے جاتے ہیں توسن ایسا
گلشنِ دہر میں لو بادِ بہاری آئی
قاف میں غل ہے، سلیماں کی سواری آئی

حُرؔ پکارا کہ بجا کہتے ہو بے شک لاریب
دامنِ حضرتِ شبیرؔ نے ڈھانپے مرے عیب
دولتِ دیں سے نہ دامن مرا خالی ہے نہ جیب
بارک اللہ کی دیتا ہے صدا ہاتفِ غیب
فیض پا کر پئے شمشیر زنی آیا ہوں
یاں سے محتاج گیا واں سے غنی آیا ہوں

مجھکو خورشید کیا نورِ خدا کی ضو نے
نور بخشا قمرِ فاطمہؔ کے پرتو نے
بخت پائے ہیں سکندرؔ کے غلامِ نو نے
گنج وہ لایا ہوں دیکھا جو نہ تھا خسرو نے
دَور دَور آج سے میرا ہے، زمانہ میرا
کبھی خالی نہیں ہونے کا خزانہ میرا

رخِ روشن کو مرے تکتے ہو کیا حسرت سے
مَل کے آیا ہوں منہ اپنا قدمِ حضرت سے
نور وہ ہے جسے دیکھیں، نظرِ رغبت سے
وائے وہ لوگ، جو محروم ہیں اس دولت سے
مجھکو بھی دیکھ کے بیدار نہیں ہوتے ہو
ہے غضب آنکھیں تو کھولے ہو، مگر سوتے ہو

جانِ سلطانِ رسالت کو غنیمت جانو
پسرِ شاہِ ولایت کو غنیمت جانو
نورِ خالق کی زیارت کو غنیمت جانو
قمر برج امامت کو غنیمت جانو
ساتھ اس کے برکت خلق سے اٹھ جائے گی
پھر جو ڈھونڈو گے یہ دولت تو نہ ہاتھ آئے گی

ایک سید کے مٹا دینے میں ہے کون سا نام
اس ہوا پر ہو کہ بجھ جائے چراغِ اسلام
گر ہو دانا تو کہو بد ہے کہ ہے نیک یہ کام
خوش نما کب ہے وہ تسبیح، نہ ہو جس میں امام
شکرِ احسانِ جناب احدی کرتے ہیں
پیشوا سے، کہیں پیرو بھی بدی کرتے ہیں

یہ سخن سن کے پکارا پسرِ سعد شریر
ہاں طرف دارِ شہِ دیں پہ چلیں نیزہ و تیر
لئے حربوں کو بڑھا فوج کا انبوہِ کثیر
فاتحہ پڑھ کے جواں مرد نے کھینچی شمشیر
حُرؔ کا منہ سرخ ہوا، فوجِ ستم زرد ہوئی
شعلۂ تیغ سے بجلی کی چمک گرد ہوئی

رعد تھرا گیا نعرے جو سنے ضیغم کے
استخواں کانپ گئے زیرِ زمیں رستم کے
تہ و بالا ہوئیں لشکر کی صفیں جم جم کے
برقِ شمشیر سے ڈر ڈر کے فرس بھی چمکے
نوبتِ جنگ نہ آئی تھی کہ دل ٹوٹ گئے
بیرقیں گر گئیں ہاتھوں سے نشاں چھوٹ گئے

چھیڑ کر باگ، فرس کو جو ذرا گرمایا
غیظ میں آن کے گھوڑا بھی غضب کف لایا
شیر سا فوجِ مخالف پہ جھپٹ کر آیا
روند ڈالا اسے دم میں جسے سرکش پایا
اس کا قاتل تھا جو دشمن شہِ عالی کا تھا
کاٹ ہر نعل میں شمشیر ہلالی کا تھا

حشر برپا تھا کہ تیغِ حُؔرِ ذی جاہ چلی
آگ برسانے کو بجلی سوئے جنگاہ چلی
کس کرشمے سے وہ لیلیٰ ظفر، راہ چلی
گہ تھمی گاہ بڑھ گاہ رکی گاہ چلی
زخم سینوں کے گریباں کی طرح پھٹتے تھے
چال کیا تھی کہ ہزاروں کے گلے کٹتے تھے

کیں صفیں صاف، مگر منہ کی صفائی نہ گئی
کج ادائی کو نہ چھوڑا، وہ لڑائی نہ گئی
کاٹ چھانٹ اور وہ لگاوٹ وہ رُکھائی نہ گئی
سیکڑوں خون کئے اور کہیں آئی نہ گئی
شور تھا برق، پئے جلوہ گری نکلی ہے
جان لینے کو اجل بن کے پری نکلی ہے

جس طرف دیدۂ جوہر سے نظر کرتی ہے
پل نہ گذرے کہ صفیں، زیر و زبر کرتی ہے
چشم ہر چند کہ پتلی کو، سپر کرتی ہے
ہے وہ طرار، کہ آنکھوں میں یہ گھر کرتی ہے
اس کے افسوں سے جو ساحر ہو تو جل جاتا ہے
سحر پریوں کا اسی طرح سے چل جاتا ہے

پھونکے بجلی کو یہ اس آگ کی ہے، پرکالا
کاٹ جائے تو کبھی لہر نہ لے پھر کالا
برچھیاں چل گئیں اس پر جسے دیکھا بھالا
آ گیا دام میں جس شخص پہ ڈورا ڈالا
اس کے پانی مین کفِ مارِ سیہ گھولا ہے
باڑھ ہے یا ملک الموت نے منہ کھولا ہے

آئی جس غول پہ لاشوں سے زمیں پاٹ گئی
دست و پا، صدر و کمر، گردن و سر کاٹ گئی
چاٹ ایسی تھی لہو کی، کہ صفیں چاٹ گئی
دیکھی تیغوں کی جدھر باڑھ، اسی گھاٹ گئی
جس پہ جاتی تھی، نہ بے جان لئے پھرتی تھی
ایک بجلی تھی، مگر لاکھ جگہ گرتی تھی

گل نئے پھولے جو برچھی پہ لگا پھل اس کا
زور دکھلاتا تھا، ہر ضرب میں کس بل، اس
ڈھیر تھا خاک پہ کاٹا ہوا جنگل، اس کا
جو بڑھا جنگ میں قصہ ہوا فیصل اس کا
شور تھا دیکھئے کیوں کر یہ بلا ٹلتی ہے
اس قدر جلد تو سیفی بھی نہیں چلتی ہے

جنگ میں تیغ کو دعویٰ تھا کہ یکتا ہوں میں
سر اٹھایا تھا یہ گھوڑے نے کہ عنقا ہوں میں
چرخ کہتا تھا کہ یارب تہ و بالا ہوں میں
برق کہتی تھی کہ تلوار ہے یہ، یا ہوں میں
کس میں ہے یہ جو تڑپ زیر فلک میری ہے
تیغ کرتی تھی اشارہ یہ چمک میری ہے

نہ تھمی سنگ سے وہ اور نہ رکی آہن سے
ہاتھ اڑا لے گئی پہونچوں سے تو سر گردن سے
نہ اٹھی اس کی کڑی ضرب، کسی جوشن سے
چل گئی بادِ مخالف جدھر آئی، سن سے
جوش طوفاں کا دکھا کر وہ خوش اسلوب گئی
خوں کے دریا میں ہر اک کشتیٔ تن ڈوب گئی

کثرتِ جوہرِ ذاتی سے گو وہ جال میں تھی
پر تڑپ صورتِ ماہی وہی ہر حال میں تھی
تھی چمک جانے میں بجلی، تو پری چال میں تھی
کبھی مغفر میں، کبھی سر میں، کبھی ڈھال میں تھی
کہیں دم لینے کی مہلت تھی نہ بسمل کے لئے
تھی جگر کے لئے برچھی تو چھری دل کے لئے

صید کرنے کو جدھر صورتِ شہباز آئی
لاکھ تڑپا پہ نہ بے جان لئے باز آئی
غل ہوا شہپرِ شاہیں کے تلے، قاز آئی
اڑ گیا طائرِ جاں اور نہ آواز آئی
گرچہ قبضے میں لئے تھی اسے پر چھوڑ دیا
تھا زبس صیدِ زبوں، کاٹ کے سر چھوڑ دیا

آب نے آتش سوزاں کا اثر دکھلایا
تاب نے مرگ مفاجات کا گھر، دکھلایا
باڑھ نے جادۂ صحرائے سقر، دکھلایا
کھاٹ نے آئینۂِ فتح و ظفر دکھلایا
تیغ کہتی تھی در فتح کی مفتاح ہوں میں
قول قبضے کا یہ تھا قابضِ ارواح ہوں میں

خم وہ پایا تھا کہ شرمائے ہلالِ مہِ عید
حُرؔ کے ہاتھ آ گئی تھی گلشنِ جنت کی کلید
برش ایسی تھی کہ کٹ کٹ گئی سب فوجِ یزید
جامۂ کفر کے پرزے تھے زہے قطع و برید
نہ بچا تارِ نفس خلق میں، جینے کے لئے
چاک زخموں کے فقط رہ گئے سینے کے لئے

کئی حملے کئے پیہم جو کمانداروں پر
چل گئے تیر ملامت کے خطا کاروں پر
چٹکیاں سب کی دھری رہ گئیں سوفاروں پر
رخ پھرا تھا کہ گری برق ستم گاروں پر
جل کے خرمن ہوا یوں خاک کو خوشہ نہ ملا
کشمکش میں کہیں چھپنے کا بھی گوشہ نہ ملا

نیزۂ فوجِ ستمگار تھے دیکھے بھالے
دم میں اس شیر نیستاں نے قلم کر ڈالے
گرچہ تھے جان لڑائے ہوئے لڑنے والے
آفتِ مرگ کو سر سے کوئی کیوں کر ٹالے
جب سواروں کے پرے جنگ پہ تُل جاتے تھے
بند سب ناخنِ شمشیر سے کُھل جاتے تھے

الف گرز کو کر دیتی تھی ہر ضرب میں، دال
تھی ئی آمد و رفت اور نئی طرح کی چال
کہیں برچھی کی اَنی تھی تو کہیں تیر کی بھال
کہیں تلوار، کہیں خنجرِ برّاں، کہیں ڈھال
ضرب کو روک کے دشمن کو فنا کرتی تھی
دم بہ دم فوج ستم گر بھی ثنا کرتی تھی

شور تھا آگ ہے تلوار میں یا پانی ہے
جل بجھی کشتیٔ تن خون میں طوفانی ہے
ضرب میں فرد ہے یہ زور میں لاثانی ہے
کہتا تھا حُرؔ یہ فقط قوتِ ایمانی ہے
زور تھا مجھ میں نہ ایسا، نہ وغا کی طاقت
سب ہے یہ سبطِ پیمبر کی دعا کی طاقت

کہہ کے یہ فوج میں پھر تشنہ جگر ڈوب گیا
ورطۂ قلزم آفت میں گہر ڈوب گیا
لشکرِ شام کے بادل میں قمر ڈوب گیا
کشمکش تھی کہ عرق میں گلِ تر ڈوب گیا
تھا کبھی شیر سا بپھرا ہوا شمشیروں میں
کبھی نیزوں کے نیستاں میں کبھی تیروں میں

گہ چھپا اور کبھی نکلا وہ مہ برج شرف
کبھی اس صف میں در آیا کبھی روندی وہ صف
کبھی دریا کے کنارے کبھی صحرا کی طرف
کبھی نعرہ تھا کہ صدقے ترے یا شاہِ نجف
جتنے مجروح تھے دم ان کے نکل جاتے تھے
شیر بھی نامِ علی سن کے دہل جاتے تھے

نخل تھراتے تھے سب گونج رہا تھا جنگل
سرکی جاتی تھی زمیں رن کی غضب تھی ہل چل
کوند جاتی تھی، سروں پر جو وہ شمشیر اجل
منہ کے بل گرتا تھا کوئی تو کوئی سر کے بل
حشر برپا تھا سواروں پہ فرس لوٹتے تھے
دو پہ چار، ایک پہ دو، پانچ پہ دس لوٹتے تھے

بڑھ کے فرماتے تھے عباسؔ، زہے عزت و جاہ
بارک اللہ کی دیتا تھا صدا دلبرِ شاہ
کہتے تھے ابنِ حسنؔ، واہ حرِ غازی واہ
شاہ ہر ضرب پہ فرماتے تھے، ماشاء اللہ
اپنی جاں بازی کا غازی جو صلہ پاتا تھا
مسکراتا ہوا تسلیم کو جھک جاتا تھا

حیف جھکنے میں لعینوں نے جو فرصت پائی
سامنا چھوڑ کے سب فوج عقب سے آئی
لاکھ خوں ریز اُدھر، اور اِدھر تنہائی
باگ گھوڑے کی پھرانا تھا کہ برچھی کھائی
آ گیا موت کے پنجے میں نہ کچھ دیر لگی
فرق پر گرز لگا دوش پہ شمشیر لگی

سینہ غربال ہوا، تیر چلے اعدا کے
رکھ دیا شیر نے قربوس پہ سر نہوڑا کے
علیؔ اکبر نے یہ حضرت سے کہا چلا کے
گر ہو ارشاد تو مہماں کو سنھالوں جا کے
خانۂ زیں سے عدم کا سفری گرتا ہے
خاک پر گھوڑے سے اب حرِّ جری گرتا ہے

شاہ رونے لگے یہ سنتے ہی مہماں کی خبر
ہو گئی آنسوؤں سے ریشِ مبارک سب تر
علیؔ اکبر سے کہا تم ابھی ٹھہرو دلبر
حُرؔ کی امداد کو ہم جائیں گے اے نورِ نظر
کس سے اس وقت کہوں میں جو قلق مجھ پر ہے
لاش مہماں کی اٹھاؤں گا کہ حق مجھ پر ہے

عرض کی حضرتِ عباس نے جاتا ہے غلام
جوشِ رقت میں کہا شہ نے نہیں اے گلفام
میری الفت میں ہوا قتل حرِ نیک انجام
دوست کیسے، جو برے وقت میں ہم آئیں نہ کام
اس پہ جب سخت گھڑی ہو گی تو کام آئیں گے
لاش کیا قبر میں مہمان کی ہم جائیں گے

اس کے لاشے پہ نہ جائیں، یہ مروت سے ہے دور
اس سے ہم شاد ہوئے، وہ بھی تو ہو کچھ مسرور
قصرِ خلد اس کو دکھائیں کہ ہوئے عفوِ قصور
سرخ رو جاتا ہے دنیا سے وہ خالق کے حضور
ایسا ذی رتبہ کوئی خلق میں کم نکلے گا
میرے مہماں کا مری گود میں دم نکلے گا

یہ سخن کہہ کے چلے رن کو، جنابِ شبیرؔ
واں گِرا خاک پہ گھوڑے سے، حُرِ با توقیر
دیکھ کر شاہ کو آتے ہوئے بھاگے بے پیر
پہونچے لاشے پہ امامِ دو جہاں وقتِ اخیر
چمنِ ہستیِٔ مہماں کو اجڑتے دیکھا
ایڑیاں خاک پہ زخمی کو رگڑتے دیکھا

گر کے لاشے کے برابر یہ پکارے سرور
ہائے اے میرے مددگار و معین و یاور
گرز کیا تجھ کو لگا ٹوٹ گئی میری کمر
گر پڑے گھوڑے سے اور آہ نہ کی ہم کو خبر
دوست کے ہجر میں کس دوست کو چین آیا ہے
کھول دے آنکھوں کو بھائی کہ حسینؔ آیا ہے

وہ رے حُرِّ جری میں تری ہمت کے فدا
اس کو کہتے ہیں محبت اسے کہتے ہیں وفا
ہے یہ بیکس ترا شرمندۂ احساں بہ خدا
بس یہی بھائی بھی کرتے ہیں جو کچھ تو نے کیا
حق تعالیٰ چمنِ خلد میں گھر، دے بھائی
اس ریاضت کا خدا تجھ کو ثمر دے بھائی

حُرؔ کو چونکا کے حبیبؔ ابنِ مظاہر نے کہا
آپ، بیتاب ہیں اے حؔرِ جری ہوش میں آ
دیکھ دیدارِ جگر بندِ جنابِ زہراؔ
کوچ در پیش ہے یہ وقت نہیں غفلت کا
دم رکا ہے تو اشارے سے وصیت کر لے
نزع میں نورِ الٰہی کی زیارت کر لے

کسی آقا نے کبھی کی ہے یہ توقیرِ غلام
دیکھ تو رحم، ترے واسطے، روتے ہیں امام
بھائی فرماتے ہیں شفقت سے شہِ عرش مقام
اے خوشا حال خدا سب کا کرے نیک انجام
حشر تک خلق میں یہ ذکرِ غم انگیز رہا
تو تو بچپن کے غلاموں سے بھی کچھ تیز رہا

نیم وا چشم سے حُر نے، رخِ مولا دیکھا
زیرِ سر، زانوئے شبیرؔ کا تکیا دیکھا
مسکرا کر طرفِ عالمِ بالا دیکھا
شہ نے فرمایا کہ اے حُرِ جری کیا دیکھا
عرض کی حسن رخِ حور نظر آتا ہے
فرش سے عرش تلک نور نظر آتا ہے

باغ فردوس دکھاتا ہے مجھے اپنی بہار
صاف نہریں ہیں رواں جھوم رہے ہیں اشجار
شاخوں سے میری طرف بڑھتے ہیں میوے ہر بار
حوریں لاتی ہیں جواہر کے طبق بہرِ نثار
ہے یہ رضواں کی صدا دھیان کدھر تیرا ہے
دیکھ اے شاہ کے مہمان یہ گھر تیرا ہے

مجھ کو لینے چلے آتے ہیں فرشتے یا شاہ
ملک الموت بھی کرتا ہے محبت کی نگاہ
خلد سے شیرِ خدا نکلے ہیں اللہ اللہ
لو برآمد ہوئے شبّر بھی پدر کے ہمراہ
ننگے سر احمد مختار کی پیاری آئی
دیکھئے آپ کے نانا کی سواری آئی

قبلہ رو کیجئے لاشہ مرا اے قبلۂ دیں
پڑھئے یٰسین کہ اب ہے یہ دم باز پسیں
کوچ نزدیک ہے، اے باد شہِ عرش نشیں
لیجئے تن سے نکلتی ہے مری جانِ حزیں
بات بھی اب تو زباں سے نہیں کی جاتی ہے
کچھ اڑھا دیجئے مولا، مجھے نیند آتی ہے

کہہ کے یہ گود میں شبیرؔ کے لی انگڑائی
آیا ماتھے پہ عرق چہرے پہ زردی چھائی
شہ نے فرمایا ہمیں چھوڑ چلے کیوں بھائی
چل بسے حُرِّ جری پھر نہ کچھ آواز آئی
طائرِ روح نے پرواز کی طوبیٰ کی طرف
پتلیاں رہ گئیں پھر کر شہِ والا کی طرف

بس انیسؔ اب یہ دعا مانگ کہ اے ربِّ عباد
لکھنؤ کے طبقے کو تو سدا رکھ آباد
رونے والے، شہِ والا کے رہیں خلق میں شاد
ان کے سائے میں، برومند ہوں ان کی اولاد
عشرۂ ماہِ عزا نالہ کشی میں گزرے
سال بھر شہ کے غلاموں کو خوشی میں گزرے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.