بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو
بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو
کہوں کیا سرمہ کو وسمہ کو پاں کو
دیا ہے دین و دل تاب و تواں کو
نگہ کو زلف کو تل کو دہاں کو
کیا پھیکا مرے رشک چمن نے
سمن کو یاسمن کو ارغواں کو
مرے خوں کے نشاں ہیں دھو چکے شرم
جبیں کو آستیں کو آسماں کو
خرام مہوشاں چکر میں لائے
زمانہ کو زمیں کو آسماں کو
طلسم صنعت بیچوں ہے دیکھو
کفل کو ساق کو موئے میاں کو
لب نوشیں نے سکھلائی حلاوت
شکر کو شہد کو قند کلاں کو
کیا روپوش شرم روئے بت نے
جناں کو چشمۂ حیواں کو جاں کو
کہاں ہیں اہل فن لاؤں کہاں سے
نظیریؔ کو ظہوریؔ کو بیاںؔ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |