319416بدگمانیالطاف حسین حالی

بدگمانی انسان کی ایک ایسی بد خصلت ہے جس سے اکثر خود بدگمانی کرنے والے کو نیز اس شخص کو جس پر وہ بدگمانی کرتا ہے تھوڑا یا بہت نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ اسی واسطے کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے کہ یاایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم یعنی ’’اے دیندارو! بہت بدگمانیوں سے بچو بیشک بعضے گمان گناہ ہیں۔‘‘

بدگمانی کرنے کی عادت اکثر نکمی تعلیم اور ناقص سوسائٹی سے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ایک سچا مسلمان محض انصاف کی رو سے عیسائی پادریوں کے اخلاق کی تعریف تمہارے سامنے کرتا ہے۔ اب اگر تم سدا سے ایسی صحبتوں میں رہے ہو جہاں غیر مذہب کے آدمیوں کا نام ہمیشہ حقارت سے لیا جاتاہے تو تم کو غالبا یہ گمان ہوگا کہ یہ شخص عیسائی مذہب کی طرف میلان رکھتا ہے یا درپردہ عیسائی ہے۔ یامثلا ایک شخص شیعی اپنے ہم مذہبوں سے کہتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے تبرا کرنے سے منع کیا ہے۔ اب اگر وہ لوگ ہمیشہ سے خود بھی تبرا کرتے رہے ہیں اور اپنے مجتہدوں سے بھی سنتے رہے ہیں تو ضرور اس کو شیعوں کامخالف اورسنیوں کاطرف دار خیال کریں گے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دوسرے شخص کو اپنے نفس پرقیاس کرکے اس سے بدگمان ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنے ملک یاقوم کی بھلائی میں بے غرضانہ کوشش کرتا ہے مگر اس ملک یا اس قوم کے وہ آدمی جو خودغرضی میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس کی کوشش کو بھی خودغرضی ہی پر محمول کرتے ہیں۔ یا مثلاً ایک شخص اہل یورپ کو جوکہ حاکم وقت ہیں سچا اوراست باز اور خوش معاملہ سمجھ کر ان سے زیادہ میل جول رکھتاہے مگر وہ لوگ ان سے اس حیثیت سے نہیں ملتے تو وہ اس کو بھی اپنی طرح ایک خوشامدی اور گوں گیرا اور گھاتیا سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات ناواقفیت اور بے علمی سے بھی سخت بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص انگریز ی طریقے پر کھانے پینے کو اس لئے پسند کرتا ہے کہ اس کے تجربے میں وہ طریقہ صحت کے واسطے نہایت مفید ثابت ہوا ہے مگر جن لوگوں کو اس طریقہ کا تجربہ نہیں ہوا وہ اس شخص کی نسبت طرح طرح کی بدگمانیاں کرتے ہیں۔ یا مثلاً ایک دانا گورنمنٹ جو مختلف قوم ومذہب کی رعایا پر حکمراں ہے اپنے مدارس میں کسی خاص مذہب کی تعلیم کوجاری نہیں رکھتی مگر جو لوگ اس گورنمنٹ کے دانشمندانہ اصول سے ناواقف ہیں، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمارے مذہب کونیست و نابود کرنا چاہتی ہے۔

کبھی بدگمانی کاسبب یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے اخلاق و عادات قوم کے عام اخلاق وعادات کے برخلاف ہوتے ہیں ان کی نسبت سوءظن پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک قوم میں حد سے زیادہ بناوٹ، تکلف، ساختگی اور ظاہرداری کا دستور ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس قوم میں روکھا پھیکا، بے تکلف، سادہ مزاج اور کھرا پایا جائےگا وہ ضرور ایک متکبر، مغرور، بدمزاج اور اکل کھرا تصور کیا جائےگا۔ یا مثلاً ایک خاندان کے آدمی اکثر مسرف، فضول خرچ، لہو و لعب میں زندگی بسر کرنے والے اور نمائش پر مرنے والے ہیں۔ اب اگران میں کوئی شخص اس روش کے خلاف پایا جائےگا تو گو وہ کیساہی فیاض، جواں مرد، بامروت اور کنبہ پرور مگر کفایت شعار اورمنتظم ہو، خاندان کے تمام آدمی اس کو خسیس، دنی الطبع، کنٹک اور مکھی چوس خیال کریں گے۔

بعض لوگ اس دھوکہ میں کہ ہمارا ذہن دور دور پہنچتا ہے اور ہم لوگوں کے دل کی بات سمجھ لیتے ہیں، اکثر بدگمانیاں کیا کرتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص گورنمنٹ کے کسی قانون یا کسی پالیسی کو رعایا کے حق میں مضر سمجھ کر اس پر آزادانہ اعتراض یا نکتہ چینی کرتا ہے مگر وہ ’’دل کی بات سمجھنے والے لوگ‘‘ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ شخص گورنمنٹ کو آزادی پسند جانتا ہے لہٰذا اس پردہ میں گورنمنٹ پر اپنی لیاقت اور دانشمندی ظاہر کرنی چاہتا ہے۔

یا مثلاً ایک شخص مذہب اور حکمت میں اس لئے تطبیق کرتا ہے کہ جب قوم میں حکمت شائع ہو جائے تو قوم کے تعلیم یافتہ نوجوان مذہب کو عقل کے خلاف سمجھ کر اس سے تجاوز نہ کریں، مگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شخص گورنمنٹ کے ایما سے یا گورنمنٹ کے خوش کرنے کے لئے لوگوں کو لامذہب اور ملحد بنانا چاہتا ہے تاکہ سلطنت کو مذہبی مخالفت اور تعصبات کا کھٹکا نہ رہے۔ اکثر بدگمانی کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک برائی یا ایک غلطی کی وجہ سے جوکہ بشریت کا خاصہ ہے، انسان کی تمام خوبیوں پر خاک ڈال دی جاتی ہے اور اس کی کسی بات پر نیک گمان نہیں کیا جاتا۔ مثلاً ایک سچا، راست باز اور دیانتدار آدمی کسی معاملے میں غلطی سے کوئی ایسی بات کر بیٹھا جو راستی کے خلاف معلوم ہوتی ہے تواس کے بعد اب وہ کسی معاملے میں راست باز نہیں سمجھا جاتا۔ یا مثلاً ایک لائق اور دانشمند آدمی سے کوئی ایسی لغزش ہوگئی جو عقل کے خلاف معلوم ہوتی ہے تو پھر اس کی رائے پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔

بعض لوگ بات کامحل اور موقع نہ سمجھنے سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص سچی محبت اور بے ریاعشق کے جوش میں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی صرف محمدؐ کبھی صرف ابوالقاسم کبھی آمنہ کا اکلوتا بیٹا اور کبھی بنی سعد کی بکریاں چرانے والا اپنی بے ساختہ تحریروں میں لکھ جاتاہے اور تعظیم کے رسمی اور عرفی الفاظ نہیں لکھتا۔ وہ لوگ جو حسن بیان اورلطف تحریر کی گھاتوں سے واقف نہیں ہیں اور تعظیم کو انہیں رسمی اور عرفی الفاظ میں منحصر جانتے ہیں، ضرور خیال کریں گے کہ اس شخص کے دل میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ عظمت نہیں ہے۔ یا مثلاً اسلام کاایک ظریف رفارمر دوسرے رفارمر کو اپنی پرائیویٹ تحریر میں لکھتا ہے کہ ’’میں نے یہاں بہتیرے جال ڈالے مگر کوئی پنچھی دام میں نہ آیا۔‘‘ تو سادہ لوح مسلمان یا زاہد خشک اگر وہ خط دیکھ پائیں گے توان کو اس بات کا پختہ یقین ہو جائےگا کہ ان لوگوں نے اسلام کے برخلاف سازش کر رکھی ہے اور یہ مسلمانوں کو مرتد کرنا چاہتے ہیں مگر ایک سمجھدار آدمی صرف یہ کہہ کر خاموش ہو جائےگا کہ ایسی ظرافت رفارمر کی شان سے بعید ہے۔

ابلہانہ حزم و احتیاط بھی اکثر بدگمانی کا باعث ہوتی ہے۔ مثلا ًایک خوش معاملہ اور دانا گورنمنٹ ملکی معاملات کی صفائی کے لئے ہمسایہ ملک میں اپنا مشن بھیجنا چاہتی ہے مگر اس ملک کے ارکان سلطنت یہ سمجھ کر مبادا اس مشن کے آنے سے ہماری حکومت یا اقتدار میں کچھ فرق آجائے مشن کو اپنے ملک میں نہیں آنے دیتے۔ یا مثلاً ایک ہائی اسکول یا کالج سے اکثر طالب علم لائق، نیک چلن اور صاحب علم ہوکر نکلتے ہیں۔ مگر ایک وہمی مزاج رئیس اس خیال سے کہ مبادا امیری اولاد وہاں جاکر غیر جنس لڑکوں کی صحبت میں آوارہ ہو جائے اپنی اولاد کو وہاں نہیں بھیجتا۔

یہ تمام اسباب بدگمانی کے جو لکھے گئے، سرسری نظر میں سب ایک دوسرے سے جدا معلوم ہوتے ہیں مگر غور کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب ایک عام سبب سے پیدا ہوتے ہیں جس کو بدگمانی کا اصل اصول سمجھنا چاہئے۔ جس بدبخت قوم کا اخلاقی قوام بگڑ جاتا ہے اور اس کے تمام فرقوں میں ناراستی اور بے دیانتی شائع ہو جاتی ہے تو اس قوم کے خاص وعام کو مجبوراً نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ ساری دنیا سے بدگمان ہونا پڑتا ہے۔

جب لوگ متواتر دوستوں سے بے وفائی اور بھائی بندوں سے دغا اوربے مہری دیکھتے ہیں اور خود بھی ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ برتتے ہیں تو ان کو تمام جہاں میں کوئی صادق دوست نظرنہیں آتا۔ جب وہ علما کی بددیانتی اور مشائخوں کا مکر و فریب اور زاہدوں کی ریاکاری اور عابدوں کی جو فروشی اور گندم نمائی دیکھتے ہیں تو ان کو ساری دنیا مکرو زور سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے اور فرشتہ پر بھی ان کو نیک گمان نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف غیروں سے بلکہ خود اپنے سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔ جس طرح وہ سب کو جھوٹا اور مکار اور خود غرض سمجھتے ہیں اسی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ لوگ ہم کو جھوٹا اور مکار اور خود غرض سمجھتے ہیں اور اسی لئے وہ کوئی وعدہ بغیر تاکید شدید کے زبان سے نہیں نکالتے اور کوئی روایت بغیر سوگند اور قسم کے نہیں بیان کرتے اور کوئی بات بغیر سند اور شہادت کے نہیں کہتے، خواہ مخاطب کی طرف سے درخواست ہو یا نہ ہو۔ گویا وہ یہ جتاتے ہیں کہ ہماری کوئی بات اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ ان کو جا بجا خوشامد اور تملق کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہماری خیر خواہی اور دوستی پر بغیر ایسی باتوں کے یقین نہیں آ سکتا۔

تم نے اکثر نمود اورشیخی کرنے والوں کو دیکھا ہوگا کہ ایک آدھ جھوٹا سچا گواہ ان کے ساتھ ہر وقت لگا رہتا ہے۔ جب وہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں تو با ت بات پر اس گواہ کاحوالہ دیتے جاتے ہیں کہ ’’یہ بھی وہاں وہ موجود تھے ان سے پوچھئے۔‘‘ گویا وہ اپنے کو ایسا جھوٹا سمجھتے ہیں کہ ان کی کوئی بات بغیر شہادت کے قابل تسلیم نہیں۔ تم نے بعض مصنفوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ حد سے زیادہ بدیہی اور مسلم الثبوت دعوے پر بھی جب کسی کا قول سنداً نقل کرتے ہیں تو اس مصنف کا نام، کتاب کا نام، باب اور فصل کاپتہ، صفحہ اور سطر کا شمار، سنہ طباعت، مقام طبع، مطبع کا نام اور سوائے اس کے اور بھی پتے مفصل لکھتے ہیں۔ حالانکہ ان دعوؤں کے تسلیم کرنے میں جن کی تائید میں، وہ یہ مفصل سندیں لکھتے ہیں کسی کوبھی کلام نہیں ہوتا۔ مگر ان کواپنی بے اعتباری کا ایسا پختہ یقین ہوتا ہے کہ اگر ان کی کتاب ضروری مقدار سے دس گنی زیادہ ہو جائے تو بھی وہ اس تفصیل سے باز نہیں آ سکتے۔

یہ اور ایسی ہی بے شمار مثالیں اس بات کی ہیں کہ جب کسی قوم کے عام اخلاق بگڑ جاتے ہیں تو اس قوم کے لوگ نہ صرف اوروں سے بلکہ اپنے نفس سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں اورخاص کر اپنی قوم میں بدگمانی کا حال ایسا ہی دیکھتے ہیں۔ گاہک سچے دکانداروں کو بھی سچا نہیں جانتے، کیوں کہ انہوں نے بڑے بڑے یک سخنوں سے دھوکے کھائے ہیں۔ دنیادار آپس میں ایک دوسرے کوخائن اور بددیانت سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے بڑے بڑے دینداروں کو ایسا ہی پایا ہے۔ اگر کوئی دیانتدار کمیٹی قوم کی بہبودی اور اصلاح کے لئے کھڑی ہوتی ہے تو قوم کی طرف سے بجائے اعانت و امداد کے اس کی مخالفت اور مزاحمت ہوتی ہے کیونکہ قوم کے سرگروہوں کی متواتر خیانتوں نے کسی کو اعتبار اور اعتماد کے لائق نہیں چھوڑا۔ ایک شخص کی بدگمانی سے جومضر نتیجے پیدا ہوتے ہیں وہ اکثر ایک یا چند آدمیوں سے زیادہ کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن جب کسی ملک یا قوم کی عام طبیعتوں میں بدگمانی کا بیج بویا جاتا ہے تو اس سے تمام ملک یا تمام قوم کو مضرت پہنچتی ہے۔ عام بدگمانی سے اکثر ایسا ہوا ہے کہ فوج اپنے بادشاہ سے منحرف اور رعایا باغی ہو گئی ہے اور اس کے برے ثمرے فوج اور رعایا دونوں کو سالہا سال تک بھگتنے پڑے ہیں۔

افسوس ہے اور نہایت افسوس ہے کہ ہماری قوم میں بھی یہی عام بدگمانی پھیلی ہوئی ہے جس کے سبب سے اس کو طرح طرح کے نقصان اٹھانے پڑے ہیں۔۔۔ اور اٹھانے پڑیں گے۔ ابتدا میں وہ گورنمنٹ سے بدگمان تھے اور ان کویہ خیال تھا کہ ’’سرکار ہم کو عیسائی بنانا چاہتی ہے۔ پادری لوگ جو جا بجا تبلیغ عیسائیت کرتے پھرتے ہیں۔ یہ سرکار ہی کی طرف سے اس کام پر مامور ہیں اور انگریزی مدارس بھی اسی لئے قائم کئے گئے ہیں کہ ہم لوگ رفتہ رفتہ اپنے دین سے بے خبر ہوکر آخر کو دین عیسوی اختیار کر لیں۔‘‘ اس بے ہودہ اور باطل خیال سے جو بےشمار نقصان انہوں نے اٹھائے ہیں ان کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ اگر یہ پو چھا جائے کہ،

کیوں سرکار ی دفتر مسلمانوں سے خالی ہیں؟

کیوں تجارت اور صنعت کی فہرست میں مسلمانوں کانام نہیں پایا جاتاہے؟

کیوں ان کی ناداری اور افلاس روز بروز بڑھتا جاتاہے؟

کیوں ان کے خاندان پر ابر بٹتے چلے جا رہے ہیں؟

کیوں ان کی اولاد میں بدخصلتیں سب سے زیادہ پائی جاتی ہیں؟

کیوں ان کے رئیس اور امیر نالائق اور کندہ ناتراش ہوتے ہیں؟

تو شاید ان سب سوالات کا جواب یہی ہوگا کہ ’’ان کی بدگمانی سے۔‘‘

اب چند سال سے قوم کی ایک خیر خواہ جماعت نے قوم کی تعلیم و تربیت کا سامان مہیا کرنے پر کمر باندھی ہے اور علی گڑھ میں ایک ایسا قومی مدرسہ قائم کیا ہے جس کی نظیر ایشیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ اس نے قوم کی بدگمانی رفع کرنے میں بھی حتی الامکان کوشش کی ہے اورکوئی عقدہ ان کی دلجمعی کا فروگزاشت نہیں کیا مگر قوم کی بدگمانی بدستور چلی جاتی ہے وہ برابر آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں کہ ہرسال اس مدرسہ میں طالب علموں کی ایک معتدبہ مقدار توقع سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے (حالانکہ اس کے قیام کو کچھ بھی زمانہ نہیں گزرا۔ ) وہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت میں بھی بہت زیادہ اہتمام کیا جاتاہے۔ جس سے مسلمانوں کی اولاد کے واسطے ہمیشہ کے لئے اخلاق کی جڑ قائم ہوتی ہے۔ وہاں طالب علموں کی حفظ صحت کا خیال بھی جوکہ نہایت ضروری چیز ہے حد سے زیادہ کیا جاتاہے۔ ان کومذہبی قواعد کا بھی کمال قدغن کے ساتھ پابند کیا جاتا ہے۔ ان کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

غرض تعلیم و تربیت کاسامان وہاں اس قدر مہیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اولاد کے لئے اس سے بڑھ کر ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن باوجود ان سب باتوں کے بہت سے بے پروائی سے، بہت سے عناد سے اور سب سے زیادہ بدگمانی سے اس چشمہ فیض سے محروم ہیں اور اس سے قوم کی ترقی کی طرف سے ایسی سخت مایوسی ہوتی ہے جس کا تدارک ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بھوکے کو کھانا اور پیاسے کو پانی میسر نہ آنے سے بھی سخت مایوسی ہوتی ہے لیکن یہ اس مایوسی سے بہت کم ہے کہ کھانا اور پانی موجود ہو لیکن بیمار نہ کھانا کھا سکے نہ پانی پی سکے۔ ایسا بیمار کوئی دم کامہمان ہوتا ہے۔ نہ طبیب اس کے کام آ سکتا ہے نہ تیماردار اس کی مدد کر سکتا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ہمارے مسلمان بھائی اس باب میں کسی کے کہنے سننے پر التفات کریں بلکہ ان کو چاہئے کہ انصاف اور بے تعصبی سے مدرسۃ العلوم کاحال دیکھیں اور سمجھیں کہ جو کچھ ہم اس کی نسبت کہتے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط،

آفتاب آمد دلیل آفتاب
گرد لیلے بایدت زور و مہتاب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.