برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے
برسوں آنکھوں میں رہے آنکھوں سے پھر کر دل میں آئے
راہ سیدھی تھی مگر پہنچے بڑے چکر سے آپ
کٹ گئے لاکھوں گلے اس تیزیٔ رفتار سے
اب تو چل نکلے زیادہ اپنے بھی خنجر سے آپ
اپنے سینہ سے دبا دیجے ذرا سینہ مرا
چور کیجے شیشہ دل کو اسی پتھر سے آپ
حضرت زاہد نکل آیا فلک پر آفتاب
پیر و مرشد اب تو اٹھیے میکدے کے در سے آپ
کیوں جناب داغؔ یاد اللہ میری یاد ہے
بھیس بدلے رات کو آتے تھے کس کے گھر سے آپ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |