برق کو اس پر عبث گرنے کی ہیں تیاریاں
برق کو اس پر عبث گرنے کی ہیں تیاریاں
برگ گل ہی آشیاں کو اپنے ہے چنگاریاں
عہد طفلی میں بھی تھا میں بسکہ سودائی مزاج
بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں
موت کے آتے ہی ہم کو خود بخود نیند آ گئی
کیا اسی کی یاد میں کرتے تھے شب بیداریاں
اے خط اس کے گورے گالوں پر یہ تو نے کیا کیا
چاندنی راتیں یکایک ہو گئیں اندھیاریاں
خندۂ گل سے صدائے نالہ آتی ہے مجھے
خون بلبل سے مگر سینچی گئی ہیں کیاریاں
خاک کا پتلا بھی آہن سے ہے سختی میں فزوں
جسم پر انساں کے تلواریں ہوئی ہیں آریاں
خوف خالق ہے وگرنہ محتسب کیا مال ہے
خانۂ قاضی میں جا کر کیجئے مے خواریاں
کچھ ہمیں خالی نہیں کرتے ہیں یہ دیر خراب
پھر گئے ہیں یار یوں ہی اپنی اپنی باریاں
حکم کر آتشؔ کہ بازار محبت بند ہو
اب کریں ٹٹپوجئے گرم اپنی دوکاں داریاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |