برمی لڑکی
گیان کی شوٹنگ تھی اس لیے کفایت جلدی سو گیا۔ فلیٹ میں اور کوئی نہیں تھا۔ بیوی بچے راولپنڈی چلے گئے تھے۔ ہمسایوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یوں بھی بمبئی میں لوگوں کو اپنے ہمسایوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کفایت نے اکیلے برانڈی کے چار پیگ پیے۔ کھانا کھایا۔ نوکروں کو رخصت کیا اور دروازہ بند کرکے سو گیا۔
رات کے پانچ بجے کے قریب کفایت کے خمار آلود کانوں کو دھک کی آواز سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ نیچے بازار میں ایک ٹریم دندناتی ہوئی گزری۔ چند لمحات کے بعد دروازے پر بڑے زوروں کی دستک ہوئی۔ کفایت اٹھا۔ پلنگ سے اترا تو اس کے ننگے پیر ٹخنوں تک پانی میں چلے گئے ۔اس کو سخت حیرت ہوئی کہ کمرے میں اتنا پانی کہاں سے آیا اور باہر کوری ڈور میں اس سے بھی زیادہ پانی تھا۔ دروازے پر دستک جاری تھی، اس نے پانی کے متعلق سوچنا چھوڑا اور دروازہ کھولا۔
گیان نے زور سے کہا، ’’یہ کیا ہے؟‘‘
کفایت نے جواب دیا، ’’پانی‘‘
’’پانی نہیں۔۔۔ عورت!‘‘ یہ کہہ کر گیان نیم اندھیرے کوری ڈور میں داخل ہوا ۔اس کے پیچھے ایک چھوٹے سے قد کی لڑکی تھی۔ گیان کو فرش پر پھیلے ہوئے پانی کا کچھ احساس نہ ہوا۔ لڑکی نے پائیجامہ اوپر اٹھا لیا اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گیان کے پیچھے چلی گئی۔کفایت کے ذہن میں پہلے پانی تھا۔ اب یہ لڑکی اس میں داخل ہوگئی اور ڈبکیاں لگانے لگی ۔سب سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ کون ہے؟ شکل صورت اور لباس کے اعتبار سے برمی معلوم ہوتی ہے لیکن گیان اسے کہاں سے لے آیا؟ گیان اندر کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے بغیر پلنگ پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی مگر اس نے صرف ہوں ہاں میں جواب دیا اور آنکھیں نہ کھولیں۔ کفایت نے اس لڑکی کی طرف ایک نظر دیکھا جو سامنے والے پلنگ پر بیٹھی تھی اور باہر نکل گیا۔باورچی خانے میں جا کر اسے معلوم ہوا کہ ربڑ کا وہ پائپ جو رات کو بڑا ڈرم بھرا کرتا تھا باہر نکلا ہوا ہے۔ تین بجے جب نل میں پانی آیا تو اس نے تمام کمرے سیر اب کردیے۔ تینوں نوکر باہر گلی میں سو رہے تھے۔ کفایت نے ان کو جگا دیا اور پانی خارج کرنے کے کام پر لگا دیا وہ خود بھی ان کے ساتھ شریک تھا۔ سب چلووؤں سے پانی اٹھاتے تھے اور بالٹیوں میں ڈالتے جاتے تھے ۔اس برمی لڑکی نے جب ان کو یہ کام کرتے دیکھا تو جھٹ پٹ سینڈل اتار کر ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔
اس کے چھوٹے چھوٹے گورے ہاتھ انگلیوں کے ناخن بڑھائے ہوئے اور سرخی لگے نہیں تھے۔ چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال تھے جن میں ہلکی ہلکی لہریں تھیں۔ مردار موضع کا مگر کھلا ریشمی پاجامہ پہنے تھی۔ اس پر سیاہ رنگ کا ریشمی کرتا تھا جس میں اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں چھپی ہوئی تھیں۔
جب اس نے ان لوگوں کا ہاتھ بنانا شروع کیا تو کفایت نے اسے منع کیا، ’’آپ تکلیف نہ کیجیے یہ کام ہو جائے گا۔‘‘اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ چھوٹے چھوٹے سرخی لگے ہونٹوں سے مسکرائی اور کام میں لگی رہی۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر تینوں کمروں سے پانی نکل گیا۔ کفایت نے سوچا چلو یہ بھی اچھا ہوا اسی بہانے سارا گھر دھل کرصاف ہوگیا۔
وہ برمی لڑکی ہاتھ دھونے کے لیے غسل خانے میں چلی گئی۔ کفایت کمر سیدھی کرنے کے لیے بستر پرلیٹا، نیند پوری نہیں ہوئی تھی، سو گیا۔
تقریباً نو بجے وہ جاگا اور جاگتے ہی اسے سب سے پہلے پانی کا خیال آیا۔ پھر اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچا جو گیان کے ساتھ آئی تھی،’’کہیں خواب تو نہیں تھا لیکن یہ سامنے گیان سو رہا ہے اور فرش بھی دھلا ہوا ہے۔‘‘
کفایت نے غور سے گیان کی طرف دیکھا۔وہ پتلون کوٹ بلکہ جوتے سمیت اوندھا سو رہا تھا۔ کفایت نے اس کو جگایا۔ اس نے ایک آنکھ کھولی اور پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘
’’یہ لڑکی کون ہے؟‘‘
گیان ایک دم چونکا، ’’لڑکی۔۔۔ کہاں ہے؟‘‘ پھر فوراً ہی چت لیٹ گیا۔
’’اوہ۔۔۔ بکواس نہ کرو۔۔۔ ٹھیک ہے۔‘‘
کفایت نے اسے پھر جگانے کی کوشش کی مگر وہ خاموش سویا رہا۔ اس کو ساڑھے نو بجے اپنے کام پر جانا تھا۔ اس نے جلدی جلدی غسل کیا۔ شیو بھی غسل خانے کے اندر ہی کرلیا۔ باہر نکل کر ڈرائنگ روم میں گیا تو اس کو میز سجی ہوئی نظر آئی۔
صبح ناشتہ پر عام طور پر کفایت کے ہاں بہت سی مختصر چیزیں ہوتی تھیں۔ دو ابلے ہوئے انڈے۔ دو توس۔ مکھن اور چائے۔۔۔ مگر آج میز رنگین تھی ۔اس نے غور سے دیکھا، چِھلے ہوئے انڈے عجیب وغریب انداز میں کٹے ہوئے تھے کہ پھول معلوم ہوتے تھے۔ سلاد تھا بڑے خوبصورت طریقے سے پلیٹ میں سجا ہوا۔ توسوں پر بھی مینا کاری کی ہوئی تھی۔ کفایت چکرا گیا۔ باورچی خانے میں گیا تو وہ برمی لڑکی چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے کچھ کہہ رہی تھی۔ تینوں نوکر اس کے اردگرد تھے اور ہنس ہنس کر اس سے باتیں کررہے تھے۔ کفایت کو دیکھ کروہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ برمی لڑکی نے آنکھیں گھما کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔
کفایت نے اس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ کیسے کرتا۔ اس سے کیا کہتا، وہ اس کو جانتا تک نہیں تھا۔ اس نے اپنے ایک نوکر سے صرف اتنا پوچھا، ’’یہ ناشتہ آج کس نے تیار کیا ہے بشیر؟‘‘
بشیر نے اس برمی لڑکی کی طرف اشارہ کیا، ’’بائی جی نے۔‘‘
وقت بہت کم تھا۔ کفایت نے جلدی بانکا سجیلا ناشتہ کھایا اور کپڑے پہن کر اپنے دفتر روانہ ہوگیا۔ شام کو واپس آیا تو وہ برمی لڑکی اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پاجامہ پہنے اپنا کرتہ استری کررہی تھی۔ کفایت پیچھے ہٹ گیا، کیونکہ وہ صرف پائجامہ پہنے تھی۔
’’آجائیے۔‘‘
لہجہ بڑا صاف ستھرا تھا۔ کفایت نے سوچا کہ برمی لڑکی کی بجائے شاید کوئی اور بولا ہے۔ جب وہ اندر گیا تو اس لڑکی نے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کرکے اس کو سلام کیا۔ کفایت کی موجودگی میں اس نے کوئی حجاب محسوس نہ کیا۔ بڑے سکون سے وہ اپنا سیاہ کرتا استری کرتی رہی۔ کفایت نے دیکھا اس کی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیوں کے درمیانی حصے میں استری کی گرمی کے باعث پسینے کی ننھی ننھی بوندیں جمع ہوگئی تھیں۔
کفایت نے گیان کے بارے میں پوچھنے کے لیے بشیر کو آواز دینا چاہی مگر رک گیا۔ اس نے مناسب خیال نہ کیا کیونکہ وہ لڑکی آدھی ننگی تھی۔ اس نے ہیٹ اتار کر ایک طرف رکھا۔ تھوڑی دیر اس نیم عریانی کو دیکھا مگر کوئی ہیجان محسوس نہ کیا۔۔۔ لڑکی کا بدن بے داغ تھا۔ جلد نہایت ہی ملائم تھی اتنی ملائم کہ نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔
کرتا استری ہوگیا تو اس نے سوئچ اوف کیا۔ ایک کرتا اور بھی تھا سفید بوسکی کا، جو تہہ کیا ہوا استری شدہ پائجامے پر رکھا، اس نے یہ سب کپڑے اٹھائے اور کفایت سے مخاطب ہوئی، ’’میں نہانے چلی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ کفایت ٹوپی اتار کرسر کھجلانے لگا، ’’کون ہے یہ؟‘‘
اس کے دماغ میں بڑی کھدبد ہورہی تھی۔ جب وہ اس لڑکی کے متعلق سوچتا سارا واقعہ اس کے سامنے آجاتا۔ رات کو اس کا اٹھنا۔ پانی ہی پانی۔ اس کا دروازہ کھولنااور کہنا’’ پانی‘‘اور گیان کا یہ جواب دینا ’’پانی نہیں عورت‘‘ اور ایک ننھی سی گڑیا کا چھم سے اندر آجانا۔
کفایت نے دل میں کہا:ہٹاؤ جی۔۔۔ گیان آئے گا تو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔۔۔ لونڈیا ہے دلچسپ۔۔۔ اتنی چھوٹی ہے کہ جی چاہتا ہے کہ آدمی جیب میں رکھ لے۔۔۔ چلو برانڈی پئیں۔
بشیر نے گلاس، برانڈی اور برف وغیرہ سب کچھ ملاقاتی کمرے میں تپائی پر رکھ دیا تھا۔ کفایت نے کپڑے بدلے اور پینا شروع کردی۔ پہلا پیگ ختم کیا تو اسے غسل خانے کا دروازہ کھلنے کی ’’چوں‘‘ سنائی دی۔ دوسرا پیگ ڈال کر وہ انتظار کرنے لگا کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ برمی لڑکی ضرور ادھر آئے گی۔ اس کے مقررہ چار پیگ ختم ہوگئے مگر وہ نہ آئی۔ گیان بھی نہ آیا۔ کفایت جھنجھلا گیا۔ اندر بیڈ روم میں جا کر اس نے دیکھا وہ لڑکی استری کیے ہوئے کپڑے پہنے اپنی گول گول چھاتیوں پر ہاتھ رکھے بڑے اطمینان سے سو رہی تھی۔۔۔ استری والی میز پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ بڑی اچھی طرح تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔
کفایت نے واپس جا کربرانڈی کا ایک ڈبل پیگ گلاس میں ڈالا اور نیٹ ہی چڑھا گیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کا سر گھومنے لگا۔ اس نے برمی لڑکی کے متعلق سوچنے کی کوشش کی مگر اس نے ایسا محسوس کیا کہ وہ چلوؤں میں پانی بھر بھر کے اس کے دماغ میں ڈال رہی ہے۔ کھانا کھائے بغیر وہ صوفے پر لیٹ گیا اور اس برمی لڑکی کے متعلق کچھ سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے سو گیا۔
صبح ہوئی تو اس نے دیکھا کہ وہ صوفے کی بجائے اندر اپنے پلنگ پر ہے اس نے حافظے پر زور دیا، ’’میں رات کب آیا یہاں۔۔۔ کیا میں نے کھانا کھایا تھا؟‘‘
کفایت کو کوئی جواب نہ ملا۔ سامنے والا پلنگ خالی تھا۔ اس نے زور سے بشیر کو آواز دی۔ وہ بھاگا اندر آیا۔ کفایت نے اس سے پوچھا، ’’گیان صاحب کہاں ہیں؟‘‘
بشیر نے جواب دیا، ’’رات کو نہیں آئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’معلوم نہیں صاحب۔‘‘
’’وہ بائی جی کہاں ہیں؟‘‘
’’مچھی تل رہی ہیں۔‘‘
کفایت کے دماغ میں مچھلیاں تلی جانے لگیں ۔اٹھ کر باورچی خانے میں گیا تو وہ چوکی پر بیٹھی سامنے انگیٹھی رکھے مچھی تل رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کراس کے ہونٹوں پر ایک چھوٹی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ہاتھ اٹھا کر اس نے سلام کیا اوراپنے کام میں مشغول ہوگئی۔۔۔ کفایت نے دیکھا تینوں نوکر بے حد مسرور تھے اور بڑی مستعدی سے اس لڑکی کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
بشیر کو کچھ دنوں کی چھٹی پر اپنے وطن جانا تھا ۔کئی دنوں سے وہ بار بار کہتا تھا کہ صاحب مجھے تنخواہ دے دیجیے، مجھے گھرسے کئی خط آچکے ہیں۔ و الدہ بیمار ہے۔ رات کو وہ اسے تنخواہ دینا بھول گیا تھا۔ اب اسے یاد آیا تو اس نے بشیر سے کہا، ’’ادھر آؤ بشیر! اپنی تنخواہ لے لو۔۔۔ میں کل دفتر سے روپے لے آیا تھا۔‘‘
بشیر نے تنخواہ لے لی۔ کفایت نے اس سے پوچھا، ’’نو بجے گاڑی جاتی ہے۔ اس سے چلے جاؤ۔‘‘
’’اچھا جی!‘‘ یہ کہہ کر بشیر چلا گیا۔
ناشتہ بے حد لذیذ تھا، خاص طور پر مچھلی کے ٹکڑے ۔اس نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بشیر کے ذریعہ سے اس برمی لڑکی کو بلا بھیجا مگر وہ نہ آئی۔ بشیر نے کہا، ’’جی وہ کہتی ہیں کہ بعد میں کریں گی وہ ناشتہ‘‘
کفایت کی مالی حالت بہت پتلی تھی۔ گیان بھی آسودہ حال نہیں تھا۔ دونوں ادھر ادھر سے پکڑ کر گزارہ کررہے تھے۔ برانڈی کا بندوبست گیان کردیتا تھا ۔باقی کھانے پینے کا سلسلہ بھی کسی نہ کسی طرح چل ہی رہا تھا۔ جس فلم کمپنی میں گیان کام کررہا تھا، اس کا دیوالہ نکلنے کے قریب تھا مگر اس کو یقین تھا کہ کوئی معجزہ ضروررونما ہوگا اور اس کی کمپنی سنبھل جائے گی۔ شوٹنگ ہورہی تھی غالباً اسی لیے گیان رات کو نہ آسکا تھا۔
ناشتہ کرنے کے بعد کفایت نے جھانک کر باورچی خانے میں دیکھا۔ لڑکی اپنے کام میں مشغول تھی۔ تینوں ملازم لڑکے اس سے ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ کفایت نے بشیر نے سے کہا، ’’مچھلی بہت اچھی تھی۔‘‘
لڑکی نے مڑ کر دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر چھوٹی سی مسکراہٹ تھی۔
کفایت دفتر چلا گیا۔ اس کو امید تھی کہ کچھ روپوں کا بندوبست ہو جائے گا لیکن خالی جیب واپس آیا۔ برمی لڑکی اندر بیڈ روم میں لیٹی تصویروں والا رسالہ دیکھ رہی تھی۔ کفایت کو دیکھ کر بیٹھ گئی اور سلام کیا۔
کفایت نے سلام کا جواب دیا اور اس سے پوچھا، ’’گیان صاحب آئے تھے؟‘‘
’’آئے تھے دوپہر کو۔۔۔ کھانا کھا کر چلے گئے۔۔۔ پھر شام کو آئے چند منٹوں کے لیے’’ یہ کہہ کر اس نے ایک طرف ہٹ کرتکیہ اٹھایا اور کاغذ میں لپٹی ہوئی بوتل نکالی، ’’یہ دے گئے تھے کہ میں آپ کو دےدوں۔‘‘
میں نے بوتل پکڑی۔ کاغذ پر گیان کے یہ چند الفاظ تھے،’’ کم بخت یہ چیز کسی نہ کسی طرح مل جاتی ہے لیکن پیسہ نہیں ملتا۔۔۔ بہر حال عیش کرو۔۔۔ تمہارا گیان۔‘‘
اس نے کاغذ کھولا۔ برانڈی کی بوتل تھی۔ برمی لڑکی نے کفایت کی طرف دیکھا اور مسکرائی۔ کفایت بھی مسکرا دیا، ’’آپ پیتی ہیں؟‘‘
لڑکی نے زور سے اپنا سر ہلایا، ’’نہیں!‘‘
کفایت نے نظر بھر کر اس کو دیکھا اور سوچا، ’’کیا چھوٹی سی ننھی منھی گڑیا ہے!‘‘
اس کا جی چاہا کہ وہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرے ۔چنانچہ اس سے مخاطب ہوا، ’’ آئیے، ادھر دوسرے کمرے میں بیٹھتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ میں کپڑے دھوؤں گی۔‘‘
’’اس وقت؟‘‘
’’اس وقت اچھا ہوتا ہے۔۔۔ رات دھوئے، صبح سوکھ گئے۔ اٹھتے ہی استری کرلیے۔‘‘
کفایت تھوڑی دیر کھڑا رہا۔ اسے کوئی بات نہ سوجھی تو ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینا شروع کردی۔ کھانے کا وقت ہوگیا۔ اس نے برمی لڑکی کو بلایا مگر اس نے کہا، ’’میں گیان صاحب کے ساتھ کھاؤں گی۔‘‘
کفایت نے کھانا کھایا اور اپنے پلنگ پر سو گیا۔ رات کے تقریباً ایک بجے اس کی آنکھ کھلی، چاندنی رات تھی۔ ہلکی ہلکی روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہوا بھی بڑے مزے کی چل رہی تھی۔ کروٹ بدلی تو دیکھا سامنے پلنگ پر ایک چھوٹی سی سڈول گڑیا گیان کے چوڑے بالوں بھرے سینے کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ کفایت نے آنکھیں بند کرلیں۔ تھوڑے وقفے کے بعد گیان کی آواز آئی، ’’جاؤ اب مجھے سونے دو۔۔۔ کپڑے پہن لو۔‘‘
اسپرنگوں والے پلنگ کی آواز کے ساتھ ساتھ ریشم کی سر سراہٹیں کفایت کے کانوں میں داخل ہوئیں۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد کفایت سو گیا۔ صبح چھ بجے اٹھا، کیونکہ وہ رات کو یہ سوچ کر سویا تھا کہ صبح جلدی اٹھے گا۔ اسے ٹرام کا بہت لمبا سفر طے کرکے ایک آدمی کے پاس جانا تھا جس سے اسے کچھ ملنے کی امید تھی۔ پلنگ پر سے اترا تو اس نے دیکھا کہ برمی لڑکی ننگے فرش پر اس کے سلیپنگ سوٹ کا اکلوتا پائجامہ پہنے اپنے چھوٹے سے سڈول بازو کو سر کے نیچے رکھے بڑے سکون سے سو رہی ہے۔ کفایت نے اس کو جگایا۔ اس نے اپنی کالی کالی آنکھیں کھولیں۔ کفایت نے اس سے کہا، ’’آپ یہاں کیوں لیٹی ہیں؟‘‘
اس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹوں پر ننھی سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ اٹھ کر اس نے جواب دیا، ’’گیان کو عادت نہیں کسی کو اپنے ساتھ سلانے کی۔‘‘
کفایت کو گیان کی اس عادت کا علم تھا۔ اس نے لڑکی سے کہا، ’’جائیے میرے پلنگ پر لیٹ جائیے۔‘‘
لڑکی اٹھی اور کفایت کے پلنگ پر لیٹ گئی۔
کفایت غسل خانے میں گیا وہاں رسی پر برمی لڑکی کے کپڑے لٹک رہے تھے۔ کفایت صابن مل کر نہانے لگا تو اس کا خیال اس لڑکی کے ملائم جسم کی طرف چلا گیا جس پرسے نگاہیں پھسل پھسل جاتی تھیں۔ غسل سے فارغ ہوکرکفایت نے کپڑے پہنے چونکہ جلدی میں تھا، اس لیے گیان کو جگا کر اس سے کوئی بات نہ کرسکا۔ صبح کا نکلا رات کے گیارہ بجے واپس آیا۔ جیبیں خالی تھیں۔ بیڈ روم میں گیا تو گیان اور برمی لڑکی دونوں اکٹھے لیٹے ہوئے تھے۔ کفایت نے ملاقاتی کمرے میں بیٹھ کر برانڈی پینی شروع کردی ۔بہت تھکا ہوا تھا۔ مایوس واپس آیا تھا۔ برمی لڑکی کے متعلق سوچتے سوچتے وہیں صوفے پر سو گیا۔ صبح پانچ بجے اٹھا۔ تپائی پر اس کا چوتھا پیگ پانی میں پڑا باسی ہورہا تھا۔
کفایت اٹھا ۔بیڈ روم کے ننگے فرش پر برمی لڑکی سو رہی تھی۔ گیان الماری کے آئینے کے ساتھ کھڑا ٹائی باندھ رہا تھا۔ ٹائی کی گرہ ٹھیک کرکے اس نے دونوں ہاتھوں میں لڑکی کو اٹھایا اور اپنے پلنگ پر لٹا دیا۔ مڑا تو اس نے کفایت کو دیکھا، ’’کیوں بھئی۔ کچھ بندوبست ہوا روپوں کا؟‘‘
کفایت نے بڑی مایوسی سے کہا، ’’نہیں۔‘‘
’’تو میں جاتا ہوں۔۔۔ دیکھو شاید کچھ ہو جائے۔‘‘
پیشتر اس کے کہ کفایت اسے روکے گیان تیزی سے باہر نکل گیا۔ دروازہ کھلا تو اس کی آوازئی، ’’تم بھی کوشش کرنا کفایت!‘‘
کفایت نے پلٹ کر پلنگ کی طرف دیکھا۔ لڑکی بڑے سکون کے ساتھ سو رہی تھی۔ اس کے ننھے سے سینے پر چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں چمک رہی تھیں۔ کفایت کمرے سے نکل کر غسل خانے میں چلا گیا۔ اندر رسی پر لڑکی کے دھلے ہوئے کپڑے لٹک رہے تھے۔ غسل خانے سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی نوکروں کے ساتھ ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی۔ ناشتہ کرکے باہر نکل گیا۔
چار روز اسی طرح گزر گئے۔ کفایت کو اس لڑکی کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ گیان کبھی رات کو دیر سے آتا تھا، کبھی دن کو بہت جلدی نکل جاتا تھا۔ یہی حال کفایت کا تھا۔ دونوں پریشان تھے۔ پانچویں روز جب وہ صبح اٹھا تو بشیر نے کفایت کو گیان کا رقعہ دیا۔ اس میں لکھا تھا ’’خدا کے لیے کسی نہ کسی طرح دس روپے پیدا کرکے برمی لڑکی کو دےدو۔‘‘
لڑکی کھڑی استری کررہی تھی۔ بلاؤز کی صرف ایک آستین باقی رہ گئی تھی جس پر وہ بڑے سلیقے سے استری پھیر رہی تھی۔ کفایت نے اس کی طرف دیکھا جب اس کی نگاہیں چار ہوئیں تو لڑکی مسکرادی۔ کفایت سوچنے لگا کہ وہ دس روپے کہاں سے پیدا کرے۔ بشیر پاس کھڑا تھا۔ اس نے کفایت سے کہا، ’’صاحب ادھر آئیے!‘‘
کفایت نے پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’جی کچھ کہنا ہے۔‘‘
بشیر نے ایک طرف ہٹ کر دس روپے کا نوٹ نکالا اور کفایت کو دےدیا، ’’میں نہیں گیا ابھی تک صاحب۔‘‘
کفایت نوٹ لے کر سوچنے لگا،’’نہیں نہیں۔۔۔ تم رکھو۔۔۔ لیکن تم گئے کیوں نہیں ابھی تک؟‘‘
’’صاحب چلا جاؤں گا کل پرسوں۔۔۔ آپ رکھیے یہ روپے۔‘‘
کفایت نے نوٹ جیب میں ڈال لیا،’’اچھا میں شام کو لوٹا دوں گا تمہیں۔‘‘
کپڑے وپڑے پہن کر جب برمی لڑکی ناشتہ کر چکی تو کفایت نے اس کو دس روپے کا نوٹ دیا اور کہا، ’’گیان صاحب نے دیا تھا کہ آپ کو دےدوں۔‘‘
لڑکی نے نوٹ لے لیا اور بشیر کو آواز دی۔بشیر آیا تو اس سے کہا، ’’جاؤ ٹیکسی لے آؤ۔‘‘
بشیر چلا گیا تو کفایت نے اس سے پوچھا، ’’آپ جارہی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھی اور بیڈ روم میں چلی گئی۔ وہ اپنا رومال استری کرنا بھول گئی تھی۔ کفایت نے اس سے باتیں کرنے کا ارادہ کیا تو ٹیکسی آگئی۔ رومال ہاتھ میں لے کر وہ روانہ ہونے لگی۔ کفایت کو سلام کیا اور کہا، ’’اچھا جی۔۔۔ میں چلتی ہوں۔ گیان کو میرا سلام بول دینا۔‘‘پھر اس نے تینوں نوکروں سے ہاتھ ملایا اور چلی گئی۔ سب کے چہروں پر اداسی چھا گئی۔
پونے گھنٹے کے بعد گیان آیا۔ وہ کچھ لے کر آیا تھا۔ آتے ہی اس نے کفایت سے پوچھا، ’’کہاں ہے وہ برمی لڑکی؟‘‘
’’چلی گئی۔‘‘
’’کیسے؟ دس روپے دیے تھے تم نے اسے؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’تو ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے!‘‘ گیان کرسی پر بیٹھ گیا۔
کفایت نے پوچھا، ’’کون تھی یہ لڑکی؟‘‘
’’معلوم نہیں۔‘‘
کفایت سرتاپا حیرت بن گیا، ’’کیا مطلب؟‘‘
گیان نے جواب دیا، ’’مطلب یہ کہ میں نہیں جانتا کون تھی۔۔۔‘‘
’’جھوٹ!‘‘
’’تمہاری قسم سچ کہتا ہوں۔‘‘
کفایت نے پوچھا، ’’کہاں سے مل گئی تمہیں؟‘‘
گیان نے ٹانگیں میز پررکھ دیں اور مسکرایا، ’’عجیب داستان ہے یار۔۔۔ پانی کا سیلاب آنے والی رات میں شنکر کے ہاں چلا گیا۔ وہاں بہت پی۔۔۔۔ اندھیری اسٹیشن سے گاڑی میں سوار ہوا تو سو گیا۔گاڑی مجھے سیدھی چرچ گیٹ لے گئی ،وہاں مجھے چوکیدار نے جگایا کہ اٹھو۔۔۔ میں نے کہا بھئی مجھے گرانٹ روڈ جانا ہے۔ چوکیدار ہنسا، آپ پانچ اسٹیشن آگے چلے آئے ہیں۔ اترا، دوسرے پلیٹ فارم پر اندھیری جانے والی آخری گاڑی کھڑی تھی۔ اس میں سوار ہوگیا۔ گاڑی چلی تو پھرمجھے نیند آگئی۔ سیدھی اندھیری پہنچ گئی۔‘‘
کفایت نے پوچھا، ’’مگر اس سے لڑکی کا کیا تعلق؟‘‘
تم سن تو لو، گیان نے سگریٹ سلگایا، ’’اندھیری پہنچا یعنی جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں میں ایک چھوٹی سی لونڈیا کے ساتھ چمٹا ہوں۔ پہلے تو میں ڈرا، وہ جاگ رہی تھی میں نے پوچھا، کون ہو تم؟۔۔۔ وہ مسکرائی۔ میں نے پھر پوچھا، کون ہو بھئی تم۔۔۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی، لو اتنی دیر سے مجھے چومتےرہے اور اب پوچھتے ہو، میں کون ہوں۔۔۔ میں نے حیرت سے کہا، اچھا۔۔۔ وہ ہنسنے لگی میں نے دماغ پر زور دےکر سوچنا مناسب خیال نہ کیا اور اس کو اپنے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ صبح تین بجے تک ہم دونوں۔۔۔ پلیٹ فارم کی ایک بنچ پر سوئے رہے۔ ساڑھے تین بجے پہلی گاڑی آئی تو اس میں سوار ہوگئے۔ میرا ارادہ تھا کہ بندوبست کرکے اس کو کچھ روپے دوں گا۔۔۔ یہاں پہنچے تو پانی کا طوفان آیا ہوا تھا۔۔۔۔ ہے نا دل چسپ داستان۔‘‘
کفایت نے کہا، ’’خاصی دلچسپ ہے۔۔۔ مگر وہ اتنے دن کیوں رہی یہاں؟‘‘
گیان نے سگریٹ فرش پر پھینکا،’’وہ کہاں رہی۔۔۔ میں نے اسے رکھا۔۔۔ اصل میں وہ یوں رہی کہ میرے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو اسے دیتا۔ بس دن گزرتے تھے۔۔۔ میں بے حد شرمندہ تھا، کل رات میں نے اس سے صاف کہہ دیا کہ دیکھو بھئی، دن بڑھتے جارہے ہیں۔ تم ایسا کرو مجھے اپنا ایڈریس دے دو، میں تمہارا حق وہاں پہنچا دوں گا۔ آج کل میرا حال بہت پتلا ہے۔‘‘
کفایت نے پوچھا، ’’یہ سن کر اس نے کیا کہا؟‘‘
گیان نے سر کو جنبش دی، ’’عجیب ہی لڑکی تھی۔۔۔ کہنے لگی، یہ کیا کہتے ہو۔۔۔ میں نے تم سے کب مانگا ہے۔۔۔ لیکن دس روپے مجھے دے دینا۔۔۔ میرا گھر یہاں سے بہت دور ہے، ٹیکسی میں جاؤںگی۔ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں‘‘
کفایت نے سوال کیا، ’’نام کیا تھا اس کا؟‘‘
گیان سوچنے لگا۔
’’بھول گئے؟‘‘
گیان نے اپنی ٹانگیں میز پر سے ہٹائیں، ’’نہیں یار۔۔۔ میں نے اس سے نام نہیں پوچھا۔۔۔ حد ہوگئی۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |