برگشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں

برگشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں
by حیدر علی آتش

برگشتہ طالعی کا تماشا دکھاؤں میں
گھر کو لگے جو آگ تو پانی بجھاؤں میں

جنس گراں بہا کا خریدار کون ہے
یکتا نہیں الٰہی جو چوری ہی جاؤں میں

لالہ رخوں کے حسن کا بھوکا ہوں اس قدر
دل ہو نہ سیر لاکھ اگر داغ کھاؤں میں

آنکھیں مری کرے جو منور جمال یار
گھی کے چراغ طور کے اوپر جلاؤں میں

مردے کی طرح سوتے ہیں کیسے مرے نصیب
ٹھوکر سے پائے یار کے ان کو جگاؤں میں

بوسہ ملے کماں کا جو ابروئے یار کی
محراب بیت کعبہ میں چلا چڑھاؤں میں

جی چاہتا ہے شوق شہادت میں قبل مرگ
بنوا کے قبر لالہ کو اس پر لگاؤں میں

گھر میں جو مجھ فقیر کے وہ شاہ حسن آئے
مژگاں کے بوریے جو کھڑے ہیں بچھاؤں میں

کانٹا سکھا کے ہجر نے ہر چند کر دیا
وہ گل بدن ملے تو نہ پھولا سماؤں میں

تم تو غریب خانہ میں آئے نہ ایک روز
فرمائیے تو شب کو کسی وقت آؤں میں

باریک بیں ہوں شاعر نازک خیال ہوں
مضموں جہاں کمر کا ملے باندھ لاؤں میں

آتشؔ غلام ساقی کوثر ہوں چاہئے
فردوس کا کھلا ہوا دروازہ پاؤں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse