برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
مانگیں کچھ اور بھی خدا سے
اچھا اچھا عدو سے ملیے
جاؤ جاؤ جی بلا سے
کیا حال کہیں دل و جگر کا
ٹکڑے ٹکڑے ہے جا بہ جا سے
ٹوٹے کانٹے تو زخم روئے
آنسو ٹپکے خراش پا سے
راحت طلبی سمجھ کے اے دل
ایسے بے درد بے وفا سے
مطلوب وہی کہ جس کی فریاد
نکلے گا کام کیا دعا سے
رو لیں آؤ گلے لپٹ کر
فرصت پھر ہو نہ ہو قضا سے
ہم تک بھی کوئی شمیم گیسو
اتنا کہہ دیجیو صبا سے
گزرے کیا جس سے جان دے دے
پوچھو تو اپنے مبتلا سے
دیکھا سب کو نسیمؔ دیکھا
خاموش بیاں مدعا سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |