بری اور بھلی سب گزر جائے گی
بری اور بھلی سب گزر جائے گی
یہ کشتی یونہیں پار اتر جائے گی
ملے گا نہ گلچیں کو گل کا پتا
ہر اک پنکھڑی یوں بکھر جائے گی
رہیں گے نہ ملاح یہ دن سدا
کوئی دن میں گنگا اتر جائے گی
ادھر ایک ہم اور زمانہ ادھر
یہ بازی تو سو بسوے ہر جائے گی
بناوٹ کی شیخی نہیں رہتی شیخ
یہ عزت تو جائے گی پر جائے گی
نہ پوری ہوئی ہیں امیدیں نہ ہوں
یونہیں عمر ساری گزر جائے گی
سنیں گے نہ حالیؔ کی کب تک صدا
یہی ایک دن کام کر جائے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |