بزم آخر/خاصہ

خاصہ


کہاریاں، کشمیرنیں دوڑیں۔ دیکھو! ہنڈکلیا، چھوٹے خاصے، بڑے خاصے کے خوان سر پر لیے چلی آتی ہیں، خوانوں کا تار لگ رہا ہے۔ ایلو! خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا چمڑا بچھایا، اوپر سفید دستر خوان بچھایا۔ بیچوں بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھ گز اونچی چوکی لگا، اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوان بچھا، خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا، خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔ اس پر بادشاہ خاصہ کھائیں گے؛ باقی دسترخوان پر بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کھانا کھائیں گی۔ لو اب کھانا چنا جاتا ہے۔ کھانوں کے نام


چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، بِری روٹی، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیر مال، گاؤ دیدہ، گاؤ زبان، کلچہ، باقر خانی، غوصی روٹی، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ، نان گلزار، نان قماش، نان تُنکی، بادام کی نان خطائی، پستے کی نان خطائی، چھوارے کی نان خطائی، یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محلی پلاؤ، نُکتی پلاؤ، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ، روپہلی پلاؤ، مرغ پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، چُلاؤ، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ، شولہ، کھچڑی، قبولی، طاہری، متنجن، زردہ مزعفر، سویاں، من و سلویٰ، فرنی، کھیر، بادام کی کھیر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نَمِش، دودھ کا دلمہ، بادام کا دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، شاخیں، کھجلے، قتلمے، قورمہ، قلیہ، دو پیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بورانی، رائتا، کھیرے کی دوغ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، سمنی، آش، دہی بڑے، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتا، آلو کا دُلمہ، بینگن کا دُلمہ، کریلوں کا دُلمہ، بادشاہ پسند کریلے، بادشاہ پسند دال، سیخ کے کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، لوزات کے کباب، خطائی کباب، حسینی کباب، روٹی کا حلوا، گاجر کا حلوا، کدو کا حلوا، ملائی کا حلوا، بادام کا حلوا، پستے کا حلوا، رنگترے کا حلوا، آم کا مربّا، سیب کا مربّا، بہی کا مربّا، ترنج کا مربّا، کریلے کا مربّا، رنگترے کا مربّا، لیموں کا مربّا، انناس کا مربّا، گڑہل کا مربّا، بادام کا مربّا، ککروندے کا مربّا، بانس کا مربّا، ان سب قسموں کے اچار اور کپڑے کا اچار بھی۔ بادام کے نُقل، پستے کے نقل، خشخاش کے نقل، سونف کے نقل، مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ اپنے اپنے موسم میں۔ اور گیہوں کی بالیں مٹھائی کی بنی ہوئیں، حلوا سوہن گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، حبشی لڈو موتی چور کے، مونگ کے، بادام کے، پستے کے، ملائی کے۔ لوزات مونگ کی، دودھ کی، پستے کی، بادام کی، جامن کی، رنگترے کی، فالسے کی، پیٹھے کی مٹھائی، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، برفی، پھینی، قلاقند، موتی پاک، در بہشت، بالو شاہی، اندرسے کی گولیاں، اندرسے وغیرہ۔

یہ سب چیزیں قابوں، طشتریوں، رکابیوں، پیالوں، پیالیوں میں قرینے قرینے سے چنی گئیں؛ بیچ میں سفل دان رکھ دیے، اوپر نعمت خانہ کھڑا کر دیا کہ مکھیاں دستر خوان پر نہ آویں۔ مشک، زعفران، کیوڑے کی بو سے تمام مکان مہک رہا ہے۔ چاندی کے ورقوں سے دستر خوان جگمگا رہا ہے۔ چلمچی، آفتابہ، بیسن دانی، چنبیلی کی کھلی، صندل کی ٹکیوں کی ڈبیاں ایک طرف زیر انداز پر لگی ہیں۔ رومال، زانو پوش، دست پاک، بینی پاک ایک طرف رومال خانے والیاں ہاتھوں میں رومال لیے کھڑی ہیں۔ جسولنی نے عرض کیا: “حضور! خاصہ تیار ہے”۔ بادشاہ اپنی تپک پر چوکی کے سامنے آن کر بیٹھے۔ دائیں طرف ملکۂ دوراں اور اَور بیگماتیں، بائیں طرف شاہزادے، شاہزادیاں بیٹھیں۔ رومال خانے والیوں نے زانو پوش گھٹنوں پر ڈال دیے، دست پاک آگے رکھ دیے۔ خاصے کی داروغہ نے خاص خوراک کی مہر توڑ، خاصہ کھلانا شروع کیا۔ دیکھو! بادشاہ آلتی پالتی مارے بیٹھے خاصہ کھا رہے ہیں؛ بیگماتیں، شاہزادے، شاہزادیاں کیسے ادب سے بیٹھی نیچی نگاہ کیے کھانا کھا رہی ہیں۔ جس کو بادشاہ اپنے ہاتھ سے اُلُش مرحمت فرماتے ہیں، کیا سر و قد کھڑے ہو کر آداب بجا کر لیتا ہے۔

ایلو! اب بادشاہ خاصہ کھا چکے، دعا مانگی، پہلے بیسن، پھر کھلی اور صندل کی ٹکیوں سے ہاتھ دھوئے، دستر خوان بڑھایا گیا۔ پلنگ خانے والیوں نے جھٹ پٹ پلنگ جھاڑ جھوڑ، ادقچہ، گبّہ، چادر، کس کسا، تکیے، گل تکیے لگا، تکیہ پوش ڈال، دولائی، چادرہ، رضائی پائنتی لگا، پلنگ آراستہ کیا۔ بادشاہ خواب گاہ میں آئے، پلنگ پر بیٹھے، بھنڈا نوش کیا؛ گھنٹہ بھر بعد آب حیات مانگا۔ آب دار خانے کی داروغہ نے گنگا کا پانی جو صراحیوں میں بھرا برف میں لگا ہوا ہے، جھٹ ایک توڑ کی صراحی نکال، مہر لگا، گیلی صافی لپیٹ خوجے کے حوالہ کیا۔اس نے بادشاہ کے سامنے مہر توڑ، چاندی کے ظرف میں نکال بادشاہ کو پلایا۔ دیکھو پیتے وقت سب کھڑے ہو گئے؛ جب پی چکے تو سب نے “مزید حیات” کہا، مجرا کیا۔

ایلو! وہ دوپہر([2]) بجی، بادشاہ پلنگ پر دراز ہوئے۔ خواب گاہ کے پردے چھٹ گئے، چپی والیاں چپی پر آ بیٹھیں۔ دیکھو تو اب کیسی چپ چاپ ہو گئی، کیا مجال کوئی ہوں تو کر سکے۔

لو اب ڈیڑھ پہر دن باقی رہ گیا۔ بادشاہ بیدار ہوئے، وضو کیا، ظہر کی نماز وظیفہ پڑھ کے لوگوں کی عرض معروض سنی۔ کچھ بات چیت کی۔ اتنے میں عصر کا وقت آگیا۔ عصر کی نماز، وظیفہ پڑھا۔ دو گھڑی دن رہ گیا۔ جسولنی نے عرض کیا: “جہاں پناہ! عملہ فعلہ توزکِ رکاب حاضر ہے”۔ حکم ہوا: “رخصت!” جھروکوں میں آ بیٹھے۔ جسولنی نے آواز دی “خبردار ہو!” سپاہیوں نے سلامی اتاری؛ امیر امرا جھروکوں میں آ کھڑے ہوئے۔ مغرب کی اذان ہوئی، بادشاہ کھڑے ہوگئے۔ مغرب کی نماز وظیفہ پڑھا۔ جھروکوں کے نیچے اور جہاں جہاں سپاہیوں کے پہرے ہیں، وردیاں بجنے لگیں۔ نقار خانے میں نوبت بجنی شروع ہوئی۔