بزم آخر/عید الاضحىٰ

عید الاضحىٰ


ذی الحجہ کے مہینے کی دسویں تاریخ صبح کو جلوس سے سوار ہوئے، عید گاہ میں آئے، دوگانہ ادا کیا۔ دیکھو جو جو باتیں عید الفطر میں ہوئی تھیں، وہی سب اس میں ہوئیں مگر یہ بات اس میں زیادہ ہے کہ عید گاہ کے اندر جنوب کی طرف ایک بڑا سا خیمہ کھڑا ہے، بیچوں بیچ میں ایک چبوترہ بنا ہوا ہے، اس پر بادشاہ کی مسند لگی۔ پیچھے دو خیمے زنا نے کھڑے ہوئے ہیں، ارد گرد بڑے بڑے سرانچے کھچے ہوئے ہیں۔ ایک اونٹ بانات کی جھول پڑی ہوئی، سینہ پر چونے کا نشان کیا ہوا، رسوں میں جکڑا ہوا، فراش پکڑے کھڑے ہیں۔ دیکھو اب اونٹ کی قربانی ہوتی ہے۔ بادشاہ اونٹ کے پاس آئے، فراشوں نے ایک بڑی سی چادر بادشاہ اور اونٹ کے بیچ میں تان لی۔ قورخانے کے داروغہ نے بادشاہ کے ہاتھ میں برچھی دی۔ قاضی نے اونٹ کی قربانی کی دعا پڑھوائی۔ بادشاہ نے دعا پڑھ کر چونے کے نشان پر اونٹ کے تاک کر برچھی ماری۔ قاضی نے اسے ذبح کیا۔ بادشاہ سوار ہو کر خیمے کی سہ دری کے پاس آئے۔ ایلو! یہاں ایک دنبہ منہدی میں رنگا ہوا کھڑا ہے۔  بادشاہ نے اس کی قربانی کی، خیمے میں آئے، مسند پر بیٹھے۔ بائیں طرف ولی عہد، دائیں طرف اور شہ زادے بیٹھ گئے۔ امیر امرا سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ خاصے والوں نے جھٹ پٹ دسترخوان بچھا اونٹ اور دنبے کی کلیجی کے کباب اور شیر مالیں اس پر لگا دیں۔ بادشاہ نے پہلے ایک ٹکڑا شیرمال کا اور ذرا سا کباب آپ منہ میں ڈالا۔ پھر ولی عہد اور شاہ زادوں اور معزز امیروں کو جو حاضر تھے، کباب اور شیر مالیں اپنے ہاتھ سے دیں۔ سب نے مجرا کر کے لیں۔ دربار برخواست ہوا۔ خیمے میں زنانہ ہو گیا۔ بیگماتیں آئیں۔ بادشاہ نے خاصہ کھایا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کے سوار ہوئے۔ دیوان خاص اور محل میں آکے وہی عید کی طرح دربار کیا۔ نذریں لیں۔ قربانی کے بکرے حیثیت کے موافق سب کے ہاں بھیجے گئے۔