بزم آخر/پھول

پھول


دیکھو! دوسرے یا تیسرے دن صبح کو پھولوں کی تیاری ہوئی۔ اچھے سے اچھا کھانا پک رہا ہے، ڈھیر سے الائچی دانے آئے، سب لوگ جمع ہوئے۔ ایک ایک سیپارہ قرآن شریف کا سب نے پڑھ کے سارا قرآن پورا کیا۔ الائچی دانوں کے ایک ایک دانے پر مل کے ستر ہزار دفعہ کلمہ پڑھا، پھر ختم ہوا؛ قرآن شریف اور کلموں کا ثواب مرحوم کی ارواح کو بخشا۔ الائچی دانے سب کو بٹ گئے، بہت سا کھانا اور جوڑا دو شالہ اللہ کے نام دیا۔ اپنے اپنے مقدور کے موافق عزیز اقرباؤں نے حاضری کے روپے دیے؛ دسترخوان بچھا، سب نے کھانا کھایا، رخصت ہوئے۔

اندر محل میں بادشاہ آئے؛ بہو، بیٹوں، داماد، بیٹیوں کو سوگ اتروانے کے دو شالے، بیویوں کو رنڈسالے مرحمت فرمائے۔ اس وقت کا کہرام دیکھو، کلیجا پھٹا جاتا ہے، بے اختیار رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہائے ان کی سب امیدیں خاک میں مل گئیں، ساری حسرتیں دل کی دل ہی میں رہ گئیں۔ حضور بھی آب دیدہ ہوئے اور بہت سی تسلی و تشفی کی اور فرمایا: “امّا صبر کرو، صبر کرو؛ رونے پیٹنے سے کچھ حاصل نہیں۔ تقدیر الٰہی میں کسی کو دم مارنے کی جائے نہیں۔ صبر کے سوا یہاں اور کچھ علاج نہیں”۔

نویں دن دسویں کی فاتحہ، انیسویں دن بیسویں کی فاتحہ ہوئی؛ ایک ایک جوڑا دوشالے سمیت اور بہت سی باقرخانیاں اور میٹھے کی طشتریاں اللہ کے نام دیں اور دو دو باقر خانیاں ایک ایک میٹھے کی طشتری سب کو نام بنام تقسیم ہوئیں۔ آٹھ سات دن پہلے بانس کی کھپچیوں کی کھانچیوں میں سات سات طرح کی مٹھائیاں طشتریوں میں لگا بسمے کے چھپے ہوئے لال جُھنّی کے کسنے کس، تورے پوش ڈال بہنگیوں میں لگا لگا کے چوبداروں کے ہاتھ نام بنام سب کے ہاں پہنچیں۔ جب کھانچیاں بٹ چکیں، چالیسویں کی تاریخ مقرر کرکے سفید کاغذ پر رقعے لکھوا کر کنبے میں بھیجے۔ میر عمارت کو قبر کی تیاری کا حکم ہوا؛ اس نے پہلے قبر کا کڑا کھلوایا، گلاب کیوڑے کے شیشے اور عطر اندر ڈال کر اوپر پکی قبر بنوا، اوپر سنگ مرمر کا تعویذ کھڑا فرش لگا کے قبر تیار کر دی۔ انتالیسویں دن رات کو بہت سا کھانا پکا، سب کنبے کے لوگ اکٹھے ہوئے۔ دیکھو جس جائے انتقال ہوا تھا وہاں ایک کھانے کا تورہ اور جوڑا، دوشالہ، جانماز، تسبیح، مسواک، کنگھا، جوتی، کشتی میں لگا کے اور تانبے کے برتن غوری، رکابی، طشتری، قفلی، بادیہ، کٹورہ، سفل دان، پتیلا، پتیلی، لگن، لگنی، سینی، چمچہ، کفگیر، تھالی، سرپوش، چلمچی، آفتابہ، بیسن دانی وغیرہ رکھے گئے اور دو لال سبز طوغیں سوا من چربی کی سرہانے روشن ہوئیں۔ رات بھر رونا پیٹنا رہا، صبح کو سب قبر پر آئے۔ کمخابی شامیانہ چاندی کی چوبوں پر قبر کے اوپر کھڑا ہوا، اس کے گرد پھولوں کا چھپرکھٹ بنا، بیچ میں کمخاب کا قبر پوش، پھولوں کی چادر ڈالی، سرہانے کھانے کا تورہ اور برتن رکھے۔ لوبان، اگر روشن ہوا، جوڑا قبر کو پہنایا، پائنتی جوتی رکھی۔ زنانہ ہوا، بیگماتیں آئیں، خوب روئیں پیٹیں۔ باہر ختم ہوا، الائچی دانے ختم کے سب کو بٹے، پھر قوالی ہوئی۔ قوالی کے بعد سب نے کھانا کھایا، اللہ کے نام بٹوایا۔ تیسرے پہر کو پھر ختم ہوا۔ وہ تورہ، جوڑا، برتن وغیرہ سب خادموں کو دیے، اپنے گھر آئے۔ سہ ماہی، چھ ماہی کی فاتحہ وہی دسویں بیسویں کی طرح ہوئیں۔ برسی کی فاتحہ میں تورہ، جوڑا، برتن وغیرہ مرنے کی جائے نہیں رکھے گئے اور نہ وہ طوغیں روشن ہوئیں، باقی رسمیں چالیسویں کی طرح ہوئیں۔ پہلے سال جو مُردے کی فاتحہ ہوتی ہے اسے برسی کہتے ہیں، اس کے بعد پھر جو ہر سال برسویں دن فاتحہ ہوگی وہ دیسہ کہلاتا ہے۔ بزرگوں اور بادشاہوں کے دیسے کو عرس کہتے ہیں۔