بزم آخر/پھول والوں کی سیر

پھول والوں کی سیر


دلی سے سات کوس جنوب کی طرف مہرولی ایک گاؤں ہے، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کا وہاں مزار ہے،اس سبب سے یہ گاؤں خواجہ صاحب یا قطب صاحب کرکے مشہور ہے،بادشاہوں کے بڑے بڑے نامی مکان بنائے ہوئے یہاں موجود ہےاور امیروں نے بھی سیر کے واسطے یہاں مکان بنائے ہیں،برسات میں یہاں عجب کیفیت ہوتی ہے۔

اکبر شاہ بادشاہ ثانی کو یہاں کی آب و ہوا موافق تھی اورسیر بہت پسند تھی،اس سبب سے برسات کے موسم میں یہاں آکر رہتے تھے۔

جس زمانے میں مرزا جہانگیر اکبر شاہ کے چاہیتے بیٹے نظربند ہوکے الہ آباد بھیجے گئے تھےتو نواب ممتاز محل ان کی والدہ نے یہ منت مانی تھی کہ مرزا جہانگیر چھٹ کر آئیں گے تو حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر پھولوں کا چھپرکھٹ اور غلاف بڑی دھوم دھام سے چڑھاؤں گی۔

جب مرزا جہانگیر چھٹ کر آئے تو ان کی والدہ نے اپنی منت پوری کی،غلاف اور پھولوں کا چھپرکھٹ اور چھپر کھٹ میں پھول والوں نے اپنا ایجاد ایک پھولوں کا پنکھا بھی بنا کر لٹکا دیا تھا،حضرت خواجہ صاحب کے مزار پر چڑھایا اور بہت سا کھانا دانا‌ فقیروں کو لٹایا۔ بادشاہ کی خوشی کے سبب سے سارے قلعے کے لوگ اور شہر کی خلقت جمع ہوگئی،گویا ایک بڑا بھاری میلہ ہوگیا۔ اکبر شاہ بادشاہ کو یہ میلہ بہت پسند آیا، ہر برس ساون کے مہینے میں اسے مقرر کردیا۔ دو سوروپے پھول والوں کو پنکھے کی تیاری اور انعام کے جیب خاص سے ملتے تھےاور ہر برس یہ میلہ ہوتا تھا،بلکہ اب بھی ہوتا ہے،جس کا جی چاہے دیکھ لے۔

دیکھو! مہینوں پہلے بادشاہ کے ہاں پنکھے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ رنگ برنگ کے جوڑے، طرح طرح کے ان پر مصالحے ٹک رہے ہیں۔ فراش، سپاہی اور سب کارخانوں کے لوگ خواجہ صاحب روانہ ہوئے۔ دیوان خاص، بادشاہی محل جھاڑ جھوڑ، فرش فروش، چلون، پردے لگا آراستہ کیا۔ ایک دن پہلے محل کا تانتا([31]) روانہ ہوا، خاصگی رتھوں میں تورے داریں([32])، تصرفی میں سب کارخانے والیاں، نوکریں چاکریں، لونڈیاں باندیاں ہیں۔ خوجے سپاہی ساتھ ساتھ چلے جاتے ہیں۔ خمریاں رتھوں کے ساتھ ساتھ دیکھو کیسی دوڑتی اور مانگتی جاتی ہیں: “اللہ خیریں ہی خیریں رہیں گی! تیرے من کی مرادیں ملیں گی ملیں گی! تجھے حق نے دیا ہے دیا ہے۔ تیرے بٹوے میں پیسہ دھرا ہے دھرا ہے۔ تجھے مولیٰ نوازے!دے جا دے جا”۔

دوسرے دن صبح کو بادشاہ سوار ہوئے، چڑھی بڑھی بیگماتیں اور شاہ زادے نالکی اور عماریوں میں ساتھ ہوئے۔ شہر کے باہر سواری آئی، سب جلوس ٹھہرگیا، سلامی اتار قلعے کو رخصت ہوا۔ چھڑی سواری، ہوا دار یا سایہ دار تخت یا چھ گھوڑوں کی بگھی میں خواجہ صاحب میں داخل ہوئے۔ دیکھو سنہری بگھی، اوپر نالکی نما بنگلہ، آگے چھجا، ان پر سنہری کلسیاں ہیں۔ کوچبان لال لال بانات کی کمریاں، پھندنے دار گردان ٹوپیاں، کلابتونی کام کی پہنے ہوئے، گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھے ہانکتے جاتے ہیں۔ آگے آگے سانڈنی سوار، پیچھے سواروں کا رسالہ، آبدار بھنڈا لیے، چوبدارعصا لیے، گھوڑوں پر سوار بگھی کے ساتھ ساتھ اڑائے جاتے ہیں۔ ایلو! بادشاہی محل سے لے کر تالاب اور جھرنا اور امریوں اور ناظر کے باغ تک زنانہ ہو گیا، جا بجا سرانچے کھنچ گئے، سپاہی اور خوجوں کے پہرے لگ گئے۔ کیا مقدور غیر مرد کے نام کا پشّہ بھی کہیں دکھائی دے جائے۔ محل کی جنگلی ڈیوڑھی سے بادشاہ ہوادار میں اور ملکہ زمانی تام جھام میں اور سب ساتھ ساتھ سواری کے جھرنے پر آئے۔ بادشاہ اور ملکہ زمانی بارہ دری میں بیٹھے اور سب ادھر ادھر سیر کرنے لگیں۔ کڑاھیاں چڑھ گئیں، پکوان ہونے لگے، امریوں میں جھولے پڑ گئے، سودے والیاں آ بیٹھیں۔ دیکھو کوئی حوض اور نہر کی پٹڑیوں پر مَلَک مَلَک پھرتی ہے، کوئی کھڑاویں پہنے کھڑ کھڑ کرتی ہے، کوئی آپس میں ہاتھ میں ہاتھ پکڑے ٹھمک چال چلی آتی ہے، کوئی امریوں میں جھولے پر بیٹھی گاتی ہے:

جھولا کن نے ڈالو رے امریاں باگ اندھیری تال کنارے مورلا جھنگارے بادر کارے برسن لاگیں بوندیں پھنیاں پھنیاں جھولا کن نے ڈالو رے امریاں سب سکھی مل گئیں بھول بھلیاں بھولی بھولی ڈولیں شوق رنگ سیّاں جھولا کن نے ڈالو رے امریاں

ایلو! ایک کھڑی ایک کو ہلسا رہی ہے: “اے بی زناخی! اے بی دشمن! اے بی جان من! اچھی! چلو پھسلنے، پتھر پر سے پھسلیں”۔ وہ کہتی ہیں: “بی ہوش میں آؤ، اپنے حواسوں پر سے صدقہ دو، اپنی عقل کے ناخن لو؛ کہیں کسی کا ہاتھ منہ تڑواؤگی”۔ انا، ددا سمجھانے لگیں: “واری! کہیں بیویاں، بادشاہ زادیاں بھی پتھروں پر سے پھسلتی ہیں؛ لونڈیوں باندیوں کو پھسلواؤ، آپ سیر دیکھو”۔ “چلو بی میں تمھارے پھلاسڑوں میں نہیں آتی؛ تم یوں ہی پھپڑ دلالے کیا کرتی ہو۔ نہیں نہیں ہم تو آپ ہی پھسلیں گے”۔ “اچھا تم نہیں مانتیں تو دیکھو میں حضور سے جا کر عرض کرتی ہوں”۔ دیکھنا کیا کان دبا کے جھٹ چپکی ہو بیٹھیں۔ وہ جھوم جھوم کر بادلوں کا آنا اور بجلی کا کوندنا، مینہ کی چھم چھم، پانی کا شور، ہوا کی سائیں سائیں، کوئل کی کوک، پپیہے کی آواز، مور کی جھنگار، گانے کی للکار عجب بہار دکھا رہی ہے۔ پہاڑوں پر سبزہ لہلہا رہا ہے، رنگین کپڑوں سے لالۂ نافرمان کھل رہا ہے۔ مینہ سے رنگ کٹ کٹ کے رنگین پانی بہہ رہا ہے۔ آم کا ٹپکا لگ رہا ہے، جامنیں پٹا پٹ گر رہی ہیں۔ دیکھو کیسی دوڑ دوڑ کے اٹھا رہی ہیں۔ لو شام ہوئی، جسولنی نے آواز دی: “خبردار ہو!” بادشاہ سوار ہوئے۔ ایلو وہ سب کچھ پھینک پھنکا سواری کے ساتھ ہو لیں۔ نوکریں چاکریں گٹھری مٹھری سینت سنبھال پیچھے ہلو پتو کرتی دوڑیں۔ لو اب پندرہ دن تک اسی طرح روز جھرنے اور تالاب اور لاٹھ کا زنانہ ہوگا اور اسی سیر تماشے میں گزرے گا۔

تین دن سیر کے باقی رہے، پھول والوں نے بادشاہ کو عرضی دی، دو سو روپیہ جیب خاص سے ان کو پنکھے کی تیاری کا مرحمت ہوا۔ تاریخ ٹھہر گئی، شہر میں نفیری بج گئی، جھرنے کا زنانہ موقوف ہوا۔ دیکھو اب شہر کی خلقت آنی شروع ہوئی۔ جن کے مکان تھے وہ تو اپنے مکانوں میں آدھمکے اور مقدور والوں نے سو سو دو دو سو پچاس پچاس روپے کو تین دن کے لیے کرایہ کو لے لیے۔ غریب غربا کو جہاں جائے مل گئی وہیں بیچارے اتر پڑے۔ بعضے فاقہ مست، لنگوٹی میں مست رہنے والے عین دن کے دن روٹیاں گھر سے پکوا، کپڑے بغل میں مار پنکھا دیکھنے پہنچے۔ پنکھا درگاہ تک بھی نہ پہنچنے پایا کہ وہ اپنے گھر کو چنپت بنے۔ لو صاحب یہ بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل گئے۔ جمعرات کے دن سارے شہر کے امیر غریب، دکاندار، ہزاری بزاری جمع ہو گئے۔ شہر سنسان ہو گیا۔

یہاں کی کیفیت دیکھو؛ کسی مکان میں اجلے اجلے فرش، زربفتی مسند تکیے، چاندی کے پلنگ، باناتی پردے، مہین مہین چلونیں، پھول دار نمگیرے، ہنڈیاں، دیوار گیریاں، آئینے، جھاڑ فانوس لگے ہوئے ہیں۔ تھئی تھئی ناچ ہو رہا ہے، دیگیں کھڑک رہی ہیں۔ بریانی، متنجن، قورمہ پک رہا ہے، قہقہے چہچہے اڑ رہے ہیں۔ کہیں خیمے ایک چوبے، دو چوبے، بیچوبے، راؤٹیاں کھڑی ہیں۔ آپس میں بیٹھے کھلی ٹھٹھے مذاق کر رہے ہیں، ناچ رنگ ہو رہا ہے۔ پراٹھے، دودھ، پھینیاں اڑ رہی ہیں۔ کہیں پوری کچوری لڈو، برفی کی چکھوتیاں ہو رہی ہیں، کوئی دہی بڑوں کے چٹخارے لے رہا ہے، کوئی بے چارہ بیٹھا تندور کی آس تک رہا ہے، کوئی جھرنے میں دھما دھم کود رہا ہے، کوئی پھسلنے پتھر پر پھسل رہا ہے۔ کہیں پہلوانوں کے کمالے ہو رہے ہیں، کوئی امریوں میں جھولے پر کھڑا پینگ چڑھا رہا ہے۔ سودے والے آوازیں لگا رہے ہیں: “کالی ہی بھونرالی جامنیں ہیں، نون والی ہی لے نمکین۔ نون کے بتاشے لو! پال والا ہی لے لڈو ہے، جھرنے کا بتاشا ہی گولر ہے، کیلا ہے مصری کا، بھٹے ہیں ہری ڈالی والے، سنگھاڑے ہیں تلاؤ کے ہرے دودھیا، چاٹ ہے نیبو کے رس کی، دہی بڑے ہیں مصالحے کے”۔

سقے کھڑے کٹورے بجا رہے ہیں: “کیا برف کی کھرچن ہے، پانچوں کپڑے ہی سرد ہیں”۔ کوئی سبیل پکار رہا ہے: “پیاسو! سبیل ہے مولیٰ کے نام کی”۔ کوئی کہتا ہے تیرے پاس ہے تو دے جا، نہیں پی جا راہ مولیٰ۔ ککّڑ والے حقہ پلاتے پھرتے ہیں۔ ہیجڑے دکانوں پر چھلّا دے مورے سائیں گاتے اور مانگتے پھرتے ہیں۔ نوٹنگی والے گا رہے ہیں:

ہم مردیسی پاونے جو رین کیو بسرام بھور بھئے اٹھ جائیں گے بسے تہارو گام([33]) ہم پردیسی رے کہ جائیا ہم پردیسی رے

مداری کے تماشے، یہاں چھل([34]) بٹّے ہو رہے ہیں۔ شہدے امیروں کے مکانوں کے نیچے شور مچا رہے ہیں۔ بے نوا، آزاد، خمرے، رسول شاہی چار ابرو کی صفائی کیے ہوئے اپنی اپنی صدا کہہ رہے ہیں:

کچھ راہ خدا دے جا تیرا بھلا ہوگا بھلا کر بھلا ہوگا، سودا کر نفع ہوگا غنیمت جان لے بابا جو دم ہے اللہ ہی اللہ ہے کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

رام رام کر لے پنچھی یہ کایا نہیں پاوے گا کنکر چن چن محل بنایا مورکھ کہے گھر میرا رے نا گھر تیرا نا گھر میرا چڑیوں رین بسیرا رے رام رام کر لے اچھے بندے یہ کایا نہیں پاوے گا ماٹی اوڑھنا ماٹی بچھونا ماٹی کا سرھیانا رے ماٹی کا کلبوت بنا اس میں کلب([35]) سمایا رے رام رام کرلے اچھے بندے یہ کایا پھر نہیں پاوے گا

کہیں حسینی([36]) برہمن چادر بچھائے کھڑے کہہ رہے ہیں:

عزیزو حق تعالیٰ کبریا ہے شرف جس نے پیمبر کو دیا ہے

لو اب تیسرا پہر ہوا۔ اُدھر شاہ زادوں کی سواری، اِدھر پنکھے کی تیاری ہونے لگی۔ شہر کے رئیس اور امیر غریب اچھے اچھے رنگ برنگ کے کپڑے پہن کر نئی سج دھج، نرالی انوٹ، انوکھی وضع سے اپنے اپنے کمروں، برآمدوں، چھجّوں، کوٹھوں، چبوتروں پر ہو بیٹھے۔

ایلو! وہ پہلے آتش باز، قلعی گر، زردوزوں کے پنکھے نفیری بجتی ہوئی امیروں کے مکانوں کے نیچے ٹھہرتے ٹھہراتے انعام لیتے لواتے چلے آتے ہیں۔ اہا ہا! دیکھنا! وہ پھول والوں کے پنکھے کس دھوم سے آئے۔ کیا بہار کے پنکھے ہیں۔ آگے آگے پھولوں کی چھڑیاں ہزارے چھوٹتے؛ نفیری والے کس مزے سے “میرا پیا گیا ہے بدیس، موہے چونری کون رنگاوے، بیر ساون آیو ری” نفیری میں گاتے ٹھٹکتے ٹھٹکاتے روپے رولتے چلے آتے ہیں۔ پیچھے شاہزادے ہاتھیوں پر سوار، آگے سپاہیوں کی قطار، تاشہ مرفہ بجاتے ہوئے، پیچھے خواصی میں مختار بیٹھے مورچھل کرتے ہوئے، نقیب چوبدار پکارتے ہوئے “صاحب عالم پناہ سلامت!” چلے آتے ہیں۔ ان کے پیچھے اور امیر امرا کے ہاتھی چلے آتے ہیں۔ دیکھو رستے میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، آدمی آدمی پر گرتا ہے۔ کوٹھے، چھجے، مکان بوجھ کے مارے ٹوٹے پڑتے ہیں۔ وہ میٹھی میٹھی پھوار، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور وہ نفیری کی بھینی بھینی آواز قہر توڑ رہی ہے۔ وہ سہانا سہانا جنگل اور وہ آدمیوں کی بھیڑ بھاڑ، کیاگل زار ہو رہا ہے۔ اس دھوم دھام سے شام کو بادشاہی محلوں کے نیچے پنکھے آئے۔ شاہزادے ہاتھی پر سے اتر کے اپنے کمروں میں آبیٹھے اور سب پیدل ہو گئے، حضور چلونوں میں اوپر آبیٹھے ہیں۔

اب نفیری والوں کی سیر دیکھو! کیسی جان توڑ توڑ کر نفیری بجا رہے ہیں۔ خوجے اوپر سے چھناچھن ان کی جھولیوں میں روپے پھینک رہے ہیں۔ انعام لے لے کر رخصت ہوئے، پنکھے درگاہ میں جا کر چڑھا دیے۔ رات بھر ناچ رنگ کی محفلیں ہوئیں؛ ڈھولک، ستار، طنبورہ، طبلہ کھڑکتا رہا۔ صبح کو سونے چاندی کے چھلے، انگوٹھیاں، اکّے، نونگے، پوتھوں کے لچھے، موتیوں کے ہار اور کنٹھیاں، شیشوں کے ہار اور لال، سبز، زرد، اودے، پچرنگے سوت کے ڈورے، پنکھیاں، پراٹھے، پنیر، کھویا، یہاں کی سوغاتیں لے لوا چلنا شروع کیا۔ شام تک سب میلہ بِھرّی ہو گیا۔ بادشاہ ساری برسات یہیں گزاریں گے؛ سیر و شکار، کل سلطنت کے کاروبار سر انجام ہوتے رہیں گے۔

دیکھو! جو بیگماتیں سیر میں نہیں آئیں انھوں نے اپنے چھوٹوں کو قلاقند، موتی پاک، لڈو کی ہنڈیاں آٹے سے منہ بند کرکے چٹھیاں لگا اور بٹووں میں اشرفیاں روپے ڈال چوبداروں اور خواصوں کے ساتھ بہنگیوں میں بھیجیں۔ سب نے پانچ پانچ، چار چار، دو دو روپے چوبدار اور خواصوں کو انعام کے دیے اور ان کے لیے سوغاتیں یہاں سے بھیجیں۔

لو صاحب پھول والوں کی سیر ہوچکی۔