بزم سے آخر شب ہے سفر جام شراب
بزم سے آخر شب ہے سفر جام شراب
شام غربت ہوئی ساقی سحر جام شراب
مست و سرشار کو سرشار سنبھالے کیا خاک
نہ تھمی دست سبو سے کمر جام شراب
کثرت مجمع اغیار سے محروم رہا
نہ ہوا بزم میں مجھ تک گزر جام شراب
محتسب دے گا جواب اپنے ستم کا تو کیا
کل جو کوثر پہ ہوا داد گر جام شراب
یہ بھی اے محتسب اس لال پری کا ہے اثر
اڑ کے پہنچی ہے جو تجھ تک خبر جام شراب
بزم دشمن میں رہے آپ تو صوفی بن کر
سرخ آنکھوں میں کہاں ہے اثر جام شراب
نہیں معلوم کہ اے داغؔ ہے تو کس دھن میں
نہ تلاش بت مہ وش نہ سر جام شراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |