بستر نرم پر وہ سوتا ہے
بستر نرم پر وہ سوتا ہے
یاں پس خیمہ کوئی روتا ہے
دھیان مژگان آب دار کا آہ
دل میں اک نیشتر چبھوتا ہے
وصل اس کا نہ پائے گا اے دل
کیوں عبث اپنی جان کھوتا ہے
قطرۂ اشک کا اثر دیکھو
کہ کدورت دلوں کی دھوتا ہے
جسے کہتے ہیں یاں سمندر سب
میرے اشکوں کا ایک سوتا ہے
تو تو غرق محیط عشق ہوا
ہاں دلا مجھ کو کیوں ڈبوتا ہے
ہو شب وصل طالب و مطلوب
کیا زمانے میں یوں بھی ہوتا ہے
شعر کہتا ہے اس طرح کے ضمیرؔ
جیسے موتی کوئی پروتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |